پٹھانے خان کا اصل نام غلام محمد تھا، اور وہ 1926 میں کوٹ ادو، ضلع مظفر گڑھ، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق سرائیکی بولنے والے علاقے سے تھا، اور وہ بنیادی طور پر ایک صوفیانہ گائیک تھے۔ پٹھانے خان کو سرائیکی زبان میں صوفیانہ کلام گانے کی وجہ سے بہت شہرت ملی۔ ان کا صوفیانہ گائیکی کا انداز منفرد تھا، جو لوگوں کے دلوں کو چھو لیتا تھا۔ ان کی شاعری میں محبت، تصوف، انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں، اور روحانی موضوعات پر گہرے فلسفیانہ خیالات شامل ہوتے تھے۔
شاعری اور کلام
پٹھانے خان کو زیادہ تر خواجہ غلام فرید اور شاہ حسین کے کلام کو گانے کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی گائیکی میں جو درد اور سوز پایا جاتا تھا، وہ سننے والوں کو ایک الگ روحانی دنیا میں لے جاتا تھا۔ خواجہ غلام فرید کے کلام میں عشقِ حقیقی کی وہ گہرائی موجود ہے جسے پٹھانے خان نے اپنی آواز کے ذریعے عوام تک پہنچایا۔ ان کی گائیکی میں محبت کا پیغام اور انسانیت کی عظمت کی ترجمانی کی گئی ہے۔
پٹھانے خان کی آواز میں خواجہ غلام فرید کی کافیوں کو سننا ایک ایسا تجربہ ہے جو روح کو چھو لیتا ہے۔ "مَینوں دس مولا، میرا قصور کیہ اے؟" جیسے کلام ان کی زندگی کے فلسفے اور صوفیانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے گانے نہ صرف موسیقی کے لحاظ سے معیاری ہوتے تھے بلکہ ان میں زندگی کے گہرے فلسفے اور روحانیت کی جھلک بھی ہوتی تھی۔ وہ اپنے کلام میں انسان کے اندرونی جذبات، زندگی کی مشکلات، اور اللہ کی محبت کے فلسفے کو بیان کرتے تھے۔
شہرت اور علاقہ
پٹھانے خان کو ان کے صوفیانہ کلام کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں شہرت ملی۔ ان کی شہرت کا ایک بڑا حصہ ان کے مخصوص انداز گائیکی اور سرائیکی زبان میں تھا۔ انہوں نے زیادہ تر اپنی زندگی مظفر گڑھ کے علاقے میں گزاری، جہاں ان کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ان کی سرائیکی زبان میں گائی گئی کافیوں نے انہیں سرائیکی بولنے والے علاقوں کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں میں بھی مقبول بنا دیا۔
پٹھانے خان کا تعلق ایک عام خاندان سے تھا اور انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں غربت کا سامنا کیا۔ وہ اکثر اپنے کلام میں غربت، درد، اور انسانی مصائب کی عکاسی کرتے تھے۔ ان کی شخصیت میں عاجزی اور انکساری تھی، جس کی وجہ سے لوگ انہیں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
شادی اور اولاد
پٹھانے خان نے دو شادیاں کیں۔ ان کی پہلی بیوی سے انہیں ایک بیٹا ہوا، لیکن بدقسمتی سے ان کی پہلی بیوی جلد ہی فوت ہوگئیں۔ دوسری شادی سے ان کے کوئی اولاد نہ تھی۔ ان کا بیٹا ایک حادثے میں فوت ہوگیا، جس کے بعد وہ اپنی زندگی میں مزید غمگین ہوگئے۔ پٹھانے خان کے لیے یہ ایک بہت بڑا صدمہ تھا، جس کی جھلک ان کی گائیکی میں دکھائی دیتی ہے۔
مشہوری شاعری
پٹھانے خان نے زیادہ تر خواجہ غلام فرید اور شاہ حسین کے کلام کو اپنی آواز دی۔ ان کی سب سے مشہور کافیوں میں سے ایک "پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے" ہے۔ اس کلام کو سننے والے ان کے انداز گائیکی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ ان کی آواز میں جو سوز و گداز تھا، وہ ان کی مشہوری کی ایک بڑی وجہ بنا۔
پٹھانے خان کے مشہور کلام میں عشقِ حقیقی، اللہ کی محبت، اور روحانیت کے موضوعات پر مبنی کافیوں اور گیتوں کو خاص مقام حاصل تھا۔ وہ اپنی گائیکی میں محبت کے فلسفے کو بیان کرتے اور لوگوں کو عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کی تفریق سمجھاتے۔ ان کے کلام میں درویشی اور سادگی کی جھلک تھی۔
مزار اور تدفین
پٹھانے خان کا انتقال 9 مارچ 2000 کو مظفر گڑھ میں ہوا۔ ان کی وفات پر پورے ملک میں غم کی لہر دوڑ گئی، خاص طور پر ان کے مداحوں کے لیے یہ ایک بڑا صدمہ تھا۔ انہیں مظفر گڑھ کے علاقے میں دفن کیا گیا، جہاں ان کا مزار واقع ہے۔ ان کے مزار پر آج بھی ان کے مداح اور عقیدت مند آتے ہیں اور ان کی یاد میں دعائیں کرتے ہیں۔
ان کی وفات کے بعد بھی ان کا کلام اور گائیکی زندہ ہے۔ پٹھانے خان کے مزار پر ہر سال ان کی برسی منائی جاتی ہے، جس میں لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی اور فن کو یاد کیا جاتا ہے، اور ان کی گائیکی کو سرائیکی ادب اور موسیقی کا ایک لازوال سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔
تاریخ پیدائش اور وفات
پٹھانے خان کی پیدائش 1926 میں ہوئی، اور وہ 9 مارچ 2000 کو وفات پاگئے۔ تقریباً 74 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہونے والے پٹھانے خان اپنی گائیکی کے ذریعے ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے کلام کو نئی نسلوں تک پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے، اور وہ ہمیشہ سرائیکی موسیقی اور صوفیانہ کلام کا ایک لازوال نام رہیں گے۔
پٹھانے خان ایک عظیم صوفی گائیک تھے، جنہوں نے اپنی گائیکی کے ذریعے صوفیانہ فلسفے اور محبت کے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا۔ ان کی زندگی میں غربت، مشکلات، اور ذاتی صدمات تھے، لیکن ان سب کے باوجود انہوں نے کبھی اپنی گائیکی کو نہیں چھوڑا۔ ان کا فن آج بھی زندہ ہے اور ان کی شاعری آج بھی لوگوں کے دلوں کو چھوتی ہے۔
تحریر و تحقیق
عطاءالمنعم
واہ کینٹ پاکستان
.
.
Comments
Post a Comment