میرا ہاکی کا سفر
میری ہاکی کا سفر 1981 میں شروع ہوا جب میں بونیر کے علاقے سواڑی بازار میں رہتا تھا اور میرا سکول ڈگر میں تھا۔ اُس وقت میں آٹھویں کلاس میں تھا، اور کھیل میں مہارت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتا تھا، لیکن اُس وقت میں ہاکی کا بہت اچھا کھلاڑی نہیں تھا۔ اُس وقت میری کھیل کی سمجھ محدود تھی، اور میں نے ہاکی کو محض ایک سرگرمی سمجھ کر کھیلا۔ پھر جب میں واہ کینٹ واپس آیا، تو ہاکی کے میدان میں میری زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا۔
واہ کینٹ میں آنے کے بعد، میں نے زاکر ہاکی کلب میں شمولیت اختیار کی، اور اولمپین زاکر حسین صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان کی شفقت سے مجھے ہاکی کی مزید تکنیکی اور عملی پہلوؤں کو سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ زاکر ہاکی کلب میں مجھے اچھے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا، جس نے میری کھیل کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں میں نے چستگی کی مشقیں کیں، مخالفین کی حرکات کو سمجھنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا، اور جسمانی جھلکے دینے اور پک کنٹرول کرنے کی مہارت میں نمایاں بہتری حاصل کی۔ زاکر ہاکی کلب کی سخت تربیت اور مقابلے کے ماحول نے مجھے ایک مضبوط کھلاڑی بنایا، اور میری ڈاجنگ کی مہارتیں مزید بہتر ہوئیں۔
زاکر ہاکی کلب کے بعد، مجھے مختلف ٹیموں کی طرف سے کھیلنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں نے کوہاٹ ڈسٹرکٹ اور کوہاٹ ڈویژن کی نمائندگی کی، جہاں میں نے مختلف ٹورنامنٹس میں حصہ لیا اور اپنی مہارتوں کو مزید نکھارا۔ اس دوران، مجھے بہاولنگر میں منعقدہ جونیئر ہاکی چیمپئن شپ میں بھی حصہ لینے کا موقع ملا، جہاں میں نے اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد، میں نے ایبٹ آباد میں منعقدہ سینئر ہاکی چیمپئن شپ میں شرکت کی، جہاں ملک کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا تجربہ حاصل ہوا۔
میری ہاکی کیریئر کا ایک اور اہم سنگ میل پاکستان ہاکی کیمپ لاہور میں شمولیت تھی، جہاں ملک کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ تربیت حاصل کی۔ یہ تجربہ میرے لیے نہایت اہم تھا کیونکہ اس نے مجھے قومی سطح پر کھیلنے کا ایک پلیٹ فارم فراہم کیا اور میری صلاحیتوں کو مزید نکھارا۔ پاکستان ہاکی کیمپ میں، میں نے اپنی فٹنس، تکنیک، اور کھیل کی حکمت عملی پر کام کیا، جس سے میری کھیلنے کی صلاحیتوں میں بہتری آئی۔
مجھے اپنے ہاکی کیریئر کے دوران پاکستان کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا اعزاز حاصل ہوا جن میں تصور اقبال، غلام عباس، رانا مجاہد، قاضی محب، طاہر زمان، خواجہ جنید، احمد عالم اور وسیم احمد جیسے عظیم نام شامل ہیں۔ یہ تمام کھلاڑی نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی مہارت اور کارکردگی کے باعث جانے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ کھیلنا میرے لیے ایک اعزاز تھا اور ان کی مہارت سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، جس سے میری اپنی ہاکی سکلز میں بھی نمایاں بہتری آئی۔
ملک کے مختلف شہروں میں کھیلنے کا تجربہ بھی میرے لیے نہایت اہم رہا۔ میں نے پشاور، مردان، نوشہرہ، کوہاٹ، بنوں، اٹک، تلہ گنگ، راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور، ملتان، صادق آباد، جہلم، ناروال، منڈی بہاولدین، خان پور کٹورا، اور اپنے شہر واہ کینٹ میں بھی ہاکی کھیلی۔ ہر شہر میں کھیلنے کے مختلف تجربات نے مجھے مختلف قسم کے کھلاڑیوں اور کھیلنے کے انداز کو سمجھنے کا موقع دیا۔ ہر شہر کا ماحول، وہاں کے کھلاڑیوں کا انداز، اور ٹورنامنٹس کا دباؤ میرے کھیل کی سمجھ اور مہارت کو مزید بہتر کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔
ہاکی کھیلنے کے دوران، میں نے ڈاجنگ کی مہارتوں میں خاص طور پر کمال حاصل کیا۔ مخالفین کو کھیل کے دوران ڈاج کرنا، اُن کے ارادوں کو بھانپنا، اور جلدی سے سمت تبدیل کرنا میری بنیادی طاقتوں میں شامل ہو گیا۔ جب میں ہاکی میں اپنی ڈاجنگ مہارتوں کو استعمال کرتا ہوں، تو مجھے اپنے اندر ایک خاص قوت کا احساس ہوتا ہے۔ یہی مہارت میری کامیابی کی بنیاد رہی اور ہر میچ میں میری کارکردگی کو منفرد بناتی تھی۔
عام زندگی میں بھی، جب کوئی مجھ سے ڈاجنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو مجھے بڑی ہنسی آتی ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ہاکی میں میں نے کس طرح محنت اور مہارت کے ساتھ یہ سب سیکھا ہے۔ ڈاجنگ کی مہارت نے نہ صرف مجھے کھیل میں کامیابی دی، بلکہ یہ مجھے عام زندگی میں بھی مختلف حالات میں بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔
میری ہاکی کا سفر 2007 میں اختتام پذیر ہوا، اور تب سے میں نے ہاکی کھیلنا چھوڑ دیا۔ لیکن میری ہاکی سے محبت ابھی بھی زندہ ہے۔ اب میں صرف اچھے اور انٹرنیشنل ہاکی ٹورنامنٹ دیکھتا ہوں، جہاں میں دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کی تکنیک اور مہارتوں کا مشاہدہ کرتا ہوں۔ یہ تجربات میرے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ میں ان کھلاڑیوں کے کھیلنے کے انداز کو دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ میں نے بھی اپنی زندگی کے ایک بڑے حصے میں اس کھیل کو کس قدر لگن اور محنت سے کھیلا۔
ہاکی میرے لیے ایک کھیل سے بڑھ کر تھی، یہ میری زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی تھی۔ یہ وہ کھیل تھا جس نے مجھے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی مضبوط بنایا۔ ہر میچ، ہر ٹورنامنٹ، اور ہر مقابلہ میرے لیے ایک نیا سبق تھا، ایک نیا تجربہ، اور ایک نیا موقع تھا اپنے آپ کو بہتر کرنے کا۔ ہاکی کے میدان میں میں نے جو کچھ سیکھا، وہ آج بھی میری زندگی کے مختلف پہلوؤں میں میرے ساتھ ہے۔
اگرچہ اب میں ہاکی نہیں کھیلتا، لیکن میری ہاکی کی یادیں، تجربات، اور اسباق ہمیشہ میرے ساتھ رہتے ہیں۔ ہاکی نے مجھے سکھایا کہ کس طرح محنت اور لگن سے ہر مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے، اور یہ کہ کبھی بھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔ میری ہاکی کی کہانی محنت، عزم، اور لگن کی کہانی ہے، اور میں ہمیشہ اپنے اس سفر کو فخر کے ساتھ یاد رکھوں گا۔
یہ سفر 1981 سے شروع ہوا اور 2007 میں ختم ہوا، مگر اس دوران میں نے جو کچھ سیکھا، وہ ہمیشہ میرے دل میں رہے گا۔ آج بھی، جب میں انٹرنیشنل ہاکی ٹورنامنٹس دیکھتا ہوں، تو میرے دل میں ایک خاص خوشی ہوتی ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں بھی اس کھیل کا ایک حصہ رہا ہوں، اور میں نے اپنی زندگی کے اہم ترین سال اس کھیل کے لیے وقف کیے۔
تحریر و تحقیق، ہاکی پلئیر
عطاءالمنعم
واہ کینٹ پاکستان
.
.
Comments
Post a Comment