ہم نہریں بنانے لگے ہیں.
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پانی کے مؤثر انتظام میں مسلسل ناکام رہا ہے۔ بدقسمتی سے، یہاں پانی کے ذخائر اور نہریں بنانے جیسے قومی مفاد کے منصوبوں پر سیاست اور تعصب غالب آ جاتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ جیسے ہی کوئی حکومت بڑا آبی منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کرتی ہے، کچھ عناصر اس کے خلاف احتجاج، جلسے اور جلوس شروع کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً، کئی اہم منصوبے یا تو التوا کا شکار ہو جاتے ہیں یا کبھی مکمل ہی نہیں ہو پاتے، جس سے نہ صرف زراعت بلکہ ملک کی معیشت اور توانائی کے شعبے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
اس کے برعکس، دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک بشمول چین، پانی کو ایک قیمتی قومی اثاثہ سمجھ کر اس کے مؤثر استعمال پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ وہاں نہروں، ڈیموں، اور واٹر مینجمنٹ سسٹمز کو قومی ترقی کا ستون سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں اگر عوام اور حکومتیں اس شعور کے ساتھ متحد ہو جائیں کہ پانی کا انتظام نسلوں کی بقا کے لیے ضروری ہے، تو شاید ہم بھی پانی کے موجودہ بحران پر قابو پا سکیں اور ایک پائیدار مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔
چین میں جنوب سے شمال پانی کی منتقلی کا منصوبہ (South-to-North Water Diversion Project) — ایک تفصیلی جائزہ
تعارف
چین میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ ہے، خاص طور پر شمالی علاقوں جیسے بیجنگ، تیانجن، اور ہیبئی میں۔ ان علاقوں کی معیشت اور آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، مگر یہاں پانی کے ذخائر محدود ہیں۔ دوسری طرف، جنوبی چین میں پانی کی بہتات ہے۔ اسی تفاوت کو ختم کرنے کے لیے چین نے ایک عظیم منصوبہ شروع کیا جسے "جنوبی سے شمالی پانی کی منتقلی کا منصوبہ" یا South-to-North Water Diversion Project (SNWDP) کہا جاتا ہے۔
یہ منصوبہ دنیا کے سب سے بڑے آبی انجینئرنگ منصوبوں میں سے ایک ہے، جس کا مقصد دریائے یانگتسی سے پانی کو شمالی علاقوں تک پہنچانا ہے۔
منصوبے کی تاریخ اور پس منظر
چینی رہنما ماؤ زے تنگ نے 1952 میں اس منصوبے کا تصور پیش کیا۔ لیکن عملی طور پر اس پر کام 21ویں صدی کے اوائل میں شروع ہوا۔ بڑھتی ہوئی پانی کی ضروریات، خشک سالی، اور ماحولیاتی مسائل نے اس منصوبے کو وقت کی اہم ترین ضرورت بنا دیا۔
اس منصوبے کے تحت تین بڑے راستے تجویز کیے گئے:
1. مشرقی راستہ (Eastern Route):
یانگتسی کے پانی کو گرینڈ کینال کے ذریعے شنگھائی سے جیانگسو، شینڈونگ، اور تیانجن تک پہنچانا۔
2. درمیانی راستہ (Middle Route):
یہ سب سے اہم اور طویل راستہ ہے، جو دانجیانگ کو ریزروائر (صوبہ ہوبی) سے شروع ہو کر ہیبئی، بیجنگ، اور تیانجن تک جاتا ہے۔
3. مغربی راستہ (Western Route):
یہ راستہ ابھی زیر غور ہے اور دریائے یانگتسی کے معاون دریاؤں سے پانی کو دریائے ہوانگ (Yellow River) میں منتقل کرنے کا منصوبہ ہے۔
درمیانی راستہ (Middle Route) – بیجنگ و ہیبئی کے لیے اہم ترین
درمیانی راستہ سب سے زیادہ توجہ کا مرکز رہا ہے کیونکہ یہ براہ راست بیجنگ اور ہیبئی کو پانی مہیا کرتا ہے۔ اس کی تعمیر 2003 میں شروع ہوئی اور پانی کی فراہمی دسمبر 2014 میں شروع ہوئی۔
اہم خصوصیات:
لمبائی: 1432 کلومیٹر
آغاز: دانجیانگ کو ریزروائر (ہوبی صوبہ)
منزل: بیجنگ، تیانجن، ہیبئی
ریاستیں: ہوبی، ہینان، ہبئی، بیجنگ، تیانجن
سرنگیں: 60 سے زائد طویل سرنگیں اور پمپنگ اسٹیشنز
سالانہ پانی کی فراہمی: 9 سے 12 ارب مکعب میٹر
بیجنگ اور ہیبئی میں پانی کی ضروریات
بیجنگ اور ہیبئی دونوں شدید پانی کی قلت کا شکار رہے ہیں۔ ان علاقوں میں زمینی پانی کی سطح مسلسل نیچے جا رہی تھی اور قدرتی آبی ذرائع محدود ہوتے جا رہے تھے۔
بیجنگ میں بہتری:
SNWDP کی بدولت اب بیجنگ کو سالانہ 1 بلین مکعب میٹر سے زائد پانی دستیاب ہے۔
گھریلو اور صنعتی شعبے اس منصوبے سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
زیر زمین پانی پر انحصار کم ہوا ہے، جس سے ماحولیاتی نظام کو تحفظ ملا ہے۔
ہیبئی میں فوائد:
شہری علاقوں میں پانی کی فراہمی میں بہتری آئی ہے جیسے شیجیاژوانگ، باوڈنگ، ہاندان۔
زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا کیونکہ فصلوں کو مستقل آبی وسائل دستیاب ہوئے۔
زمینی نشست (Land Subsidence) میں کمی آئی ہے جو پانی کی حد سے زیادہ نکاسی کے باعث ہوتی تھی۔
ماحولیاتی اثرات
اس منصوبے کے مثبت اثرات کے ساتھ کچھ منفی اثرات بھی دیکھنے میں آئے:
مثبت اثرات:
شمالی علاقوں میں قدرتی جھیلوں اور دریاؤں کی بحالی۔
زمینی پانی کی سطح میں اضافہ۔
شہری علاقوں میں پانی کی قلت میں نمایاں کمی۔
منفی اثرات:
1 لاکھ سے زائد افراد کو دانجیانگ کو ریزروائر کے لیے اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔
قدرتی جنگلات اور آبی حیات پر اثرات مرتب ہوئے۔
کچھ علاقوں میں پانی کے معیار کو برقرار رکھنا ایک چیلنج رہا۔
تکنیکی چیلنجز
اتنی لمبی نہر کے ذریعے پانی کو منتقل کرنا ایک بہت بڑا انجینئرنگ چیلنج تھا۔
سرنگوں کی کھدائی، پمپنگ اسٹیشنز کی تنصیب، اور پانی کے بہاؤ کا توازن ایک دقیق اور محنت طلب کام تھا۔
پانی کے معیار کو بہتر بنانے اور آلودگی سے بچانے کے لیے جدید ترین فلٹریشن اور مانیٹرنگ نظام نصب کیے گئے۔
مالی لاگت
یہ منصوبہ کھربوں یوان (RMB) پر مشتمل ہے۔ صرف درمیانی راستہ ہی 500 ارب یوان سے زیادہ کی لاگت کا حامل ہے۔ چین کی حکومت نے اس منصوبے پر قومی سطح کی سرمایہ کاری کی اور مختلف صوبوں نے بھی مالی تعاون کیا۔
معاشی اور سماجی فوائد
پینے کے صاف پانی کی دستیابی نے عوامی صحت پر مثبت اثرات ڈالے ہیں۔
صنعتی ترقی میں تیزی آئی کیونکہ اب فیکٹریوں کو مسلسل پانی فراہم ہوتا ہے۔
زراعت میں بہتری سے دیہی معیشت مستحکم ہوئی۔
بے روزگاری میں کمی آئی کیونکہ منصوبے سے ہزاروں افراد کو ملازمتیں ملیں۔
مستقبل کی حکمت عملی
چینی حکومت اس منصوبے کی مزید توسیع پر غور کر رہی ہے:
ویسٹرن روٹ کی تکمیل، جو دریائے یانگتسی کے مغربی معاون دریاؤں سے پانی لائے گا۔
مزید اسٹوریج ریزروائرز اور صاف پانی کی فراہمی کے مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔
پانی کی بچت کی مہمات اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے شعور اجاگر کیا جا رہا ہے۔
جنوبی سے شمالی پانی کی منتقلی کا منصوبہ ایک قابل فخر اور حیرت انگیز کارنامہ ہے جو چین کی ترقی، منصوبہ بندی، اور تکنیکی صلاحیتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس منصوبے نے نہ صرف بیجنگ اور ہیبئی میں پانی کی قلت کو دور کیا بلکہ معیشت، ماحول، اور سماج پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔
اگرچہ اس منصوبے کے کچھ منفی اثرات بھی ہیں، جیسے کہ قدرتی ماحولیاتی نظام میں مداخلت اور انسانی آباد کاری کی منتقلی، لیکن اس کے مجموعی فوائد بہت زیادہ ہیں۔ چین کے اس اقدام کو دنیا بھر میں آبی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ایک ماڈل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تحریر و تحقیق
عطاءالمنعم
واہ کینٹ پاکستان
.
.
Comments
Post a Comment