بابا بلھے شاہ (1680-1757) برصغیر پاک و ہند کے مشہور صوفی شاعر اور فلسفی تھے۔ ان کا تعلق پنجاب کے قصبے قصور سے تھا اور وہ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب برصغیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تحریکیں عروج پر تھیں۔ بابا بلھے شاہ کی شاعری اور ان کے فلسفۂ حیات نے نہ صرف ان کے دور میں لوگوں کو متاثر کیا بلکہ آج بھی ان کے خیالات کو بڑے پیمانے پر سراہا جاتا ہے۔
بابا بلھے شاہ کا پس منظر
بلھے شاہ کا اصل نام عبد اللہ شاہ تھا، لیکن ان کی شخصیت اور شاعری کی وجہ سے انہیں 'بابا بلھے شاہ' کہا جانے لگا۔ وہ ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے اور بچپن سے ہی تعلیم و تربیت میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے تصوف کی تعلیم مشہور صوفی بزرگ شاہ عنایت قادری سے حاصل کی، جو ان کے روحانی مرشد تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت میں صوفیانہ رنگ اور فلسفیانہ سوچ کا اثر واضح نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں عشق حقیقی، انسانیت، محبت اور بھائی چارے کا پیغام ملتا ہے۔
صوفیانہ تعلیمات اور انقلابی نظریات
بابا بلھے شاہ نے اپنی شاعری کے ذریعے سماجی، مذہبی اور طبقاتی تفریق کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کا بنیادی پیغام یہ تھا کہ خدا کی محبت اور اس کی تلاش کے لیے مذہبی رسومات اور ظاہری عبادات کی ضرورت نہیں، بلکہ دل کی پاکیزگی اور نیت کی سچائی ضروری ہے۔ وہ تصوف کے اس مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے جو عشق حقیقی کو زندگی کی سب سے بڑی حقیقت مانتا تھا۔
بابا بلھے شاہ کی شاعری میں انہوں نے مذہبی منافقت اور ظاہری عبادات پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا خدا کے قریب جانے کے لیے مذہبی طبقوں، علما، اور شریعت کے اصولوں کی پابندی ضروری ہے؟ ان کی شاعری نے عام لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ مذہبی طبقوں اور سماجی روایات سے آزاد ہو کر خود اپنی زندگی اور روحانیت کا راستہ تلاش کریں۔
مذہبی علما اور مخالفت
بابا بلھے شاہ کے آزادانہ خیالات اور انقلابی نظریات نے ان کے دور کے مذہبی علما کو ناراض کیا۔ وہ بابا بلھے شاہ کی شاعری اور تعلیمات کو مذہبی روایات کے خلاف سمجھتے تھے۔ ان کے نظریات کو کفر اور بدعت سے تعبیر کیا گیا اور انہیں مذہبی طبقے نے ناپسندیدہ قرار دیا۔ علما نے ان کی تعلیمات کو اسلامی تعلیمات کے خلاف سمجھا اور انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔
بلھے شاہ کی مخالفت کا اصل سبب ان کا طبقاتی نظام اور مذہبی منافقت کے خلاف موقف تھا۔ انہوں نے مذہب کو ظاہری رسومات سے پاک کر کے دل کی صفائی اور محبت پر مبنی تصور کو فروغ دیا، جس نے مذہبی علما اور روایتی طبقے کو سخت ناراض کیا۔
بابا بلھے شاہ کی وفات اور جنازے کا واقعہ
بلھے شاہ کی وفات 1757 میں ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد ایک بہت اہم واقعہ پیش آیا جسے ان کی زندگی اور تعلیمات کا نچوڑ کہا جا سکتا ہے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو مذہبی علما نے ان کے جنازے کی نماز پڑھانے سے انکار کر دیا۔ وہ انہیں مرتد اور بدعتی سمجھتے تھے، اور ان کے نظریات کو اسلامی تعلیمات کے خلاف سمجھتے تھے۔
اس فیصلے نے بلھے شاہ کے مریدوں اور چاہنے والوں میں غم و غصہ پیدا کیا۔ تاہم، عوام الناس میں بلھے شاہ کا بہت احترام تھا، کیونکہ ان کی شاعری اور تعلیمات نے عام لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت اور عقیدت پیدا کی تھی۔ بلھے شاہ نے اپنی زندگی میں ہمیشہ طبقاتی تفریق اور سماجی ناہمواری کے خلاف بات کی، اور ان کا جنازہ بھی اس کا عملی ثبوت بنا۔
جنازے کا انعقاد
بابا بلھے شاہ کے جنازے کے وقت ایک اہم واقعہ پیش آیا۔ روایت ہے کہ جب کوئی عالم یا مذہبی شخصیت ان کا جنازہ پڑھانے کے لیے آگے نہیں بڑھی تو ایک نچلے طبقے کے آدمی نے کہا کہ اگر کوئی عزت والا بلھے شاہ کا جنازہ نہیں اٹھائے گا، تو ہم غریب ان کا جنازہ اٹھائیں گے۔ اس بات نے لوگوں کو جھنجوڑا اور آخرکار عام لوگوں نے ان کا جنازہ اٹھایا اور انہیں احترام کے ساتھ دفن کیا گیا۔
اس واقعے میں بابا بلھے شاہ کے پیغام کی گہرائی نظر آتی ہے۔ وہ ہمیشہ سماجی اور مذہبی تفریق کے خلاف تھے، اور ان کا جنازہ بھی ان کی زندگی کے فلسفے کی عکاسی کرتا تھا۔ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقی روحانیت ظاہری رسومات میں نہیں بلکہ دل کی سچائی اور محبت میں مضمر ہے۔
وجوہات
بابا بلھے شاہ کے جنازے کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے کی کئی وجوہات تھیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
مذہبی علما کی مخالفت
بابا بلھے شاہ کے جنازے کو نہ پڑھانے کی سب سے بڑی وجہ ان کے مذہبی علما سے اختلافات تھے۔ ان کے آزاد خیالات اور صوفیانہ نظریات کو علما نے کفر اور بدعت سے تعبیر کیا۔ بلھے شاہ نے مذہبی رسومات اور ظاہری عبادات پر تنقید کی تھی اور ان کے نزدیک اصل دین دل کی پاکیزگی اور خدا کی محبت میں مضمر تھا۔ ان خیالات کی وجہ سے علما نے ان کا جنازہ پڑھانے سے انکار کیا۔
طبقاتی نظام کی مخالفت
بلھے شاہ نے اپنی شاعری اور تعلیمات میں طبقاتی تفریق کی شدید مخالفت کی تھی۔ وہ سماج میں موجود اعلیٰ اور ادنیٰ طبقے کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے حامی تھے۔ ان کے جنازے کے واقعے میں بھی طبقاتی نظام کی مخالفت کی جھلک نظر آتی ہے، جب نچلے طبقے کے ایک فرد نے ان کا جنازہ اٹھانے کا اعلان کیا۔
صوفیانہ نظریات
بلھے شاہ کے صوفیانہ نظریات نے ہمیشہ محبت، امن، اور انسانیت کا پیغام دیا۔ وہ ظاہری مذہبی رسومات کے بجائے دل کی سچائی اور محبت کو اہمیت دیتے تھے۔ ان کا جنازہ بھی ان کی انہی تعلیمات کا عملی مظہر تھا، جہاں مذہبی علما کے انکار کے باوجود عام لوگوں نے محبت اور احترام کے ساتھ ان کا آخری سفر مکمل کیا۔
بابا بلھے شاہ کا مزار اور ان کا اثر
بابا بلھے شاہ کا مزار قصور، پاکستان میں واقع ہے اور آج یہ ایک مقدس مقام بن چکا ہے، جہاں لوگ روحانی سکون اور فیض حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کا مزار محبت اور امن کے پیغام کی علامت ہے اور ان کی شاعری آج بھی لوگوں کے دلوں کو گرما دیتی ہے۔
بابا بلھے شاہ کے جنازے کے واقعے نے نہ صرف ان کی شخصیت کی عظمت کو مزید اجاگر کیا بلکہ یہ ثابت کیا کہ ان کے نظریات اور تعلیمات وقت کی قید سے آزاد ہیں۔ ان کی زندگی اور وفات دونوں ہی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سچائی، محبت، اور انسانیت کے پیغام کو دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی۔
بابا بلھے شاہ کا جنازے کا واقعہ ایک تاریخی اور سبق آموز واقعہ ہے، جس سے نہ صرف ان کی شخصیت اور تعلیمات کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقی روحانیت دل کی صفائی اور سچائی میں ہوتی ہے۔ ان کا جنازہ اس بات کا عملی مظہر تھا کہ انسانیت کی قدر و قیمت ظاہری رسومات میں نہیں بلکہ محبت اور احترام میں ہے۔
بابا بلھے شاہ کا پیغام آج بھی زندہ ہے اور ان کی شاعری محبت، امن، اور بھائی چارے کا درس دیتی ہے۔ ان کا جنازہ ایک علامت بن گیا ہے کہ مذہبی اور سماجی روایات کے مقابلے میں محبت اور انسانیت ہمیشہ غالب آتی ہیں۔
تحریر و تحقیق
عطاءالمنعم
واہ کینٹ پاکستان
.
.
Comments
Post a Comment