Skip to main content

"جو جنگ جیتی نہ جا سکتی ہو، اسے شروع ہی نہیں کرنا چاہیے" — فلسطین، لبنان، جنگی طاقت میں اضافہ، اور جہاد.

"جو جنگ جیتی نہ جا سکتی ہو، اسے شروع ہی نہیں کرنا چاہیے" — فلسطین، لبنان، جنگی طاقت میں اضافہ، اور جہاد. 

فلسطین اور لبنان کے تناظر میں، "جو جنگ جیتی نہ جا سکتی ہو، اسے شروع ہی نہیں کرنا چاہیے" ایک بہت گہری حکمت عملی کا درس دیتا ہے۔ یہ قول ہمیں بتاتا ہے کہ جنگ کو صرف اُس وقت شروع کیا جانا چاہیے جب فتح کے امکانات ہوں۔

"جو جنگ جیتی نہ جا سکتی ہو، اسے شروع ہی نہیں کرنا چاہیے" کا قول اکثر چینی فوجی ماہر سن زو سے منسوب کیا جاتا ہے، جو اپنی مشہور تصنیف آرٹ آف وار کے لیے مشہور ہیں۔ اس تناظر میں، سن زو نے اس بات پر زور دیا کہ جنگی منصوبہ بندی میں حکمت عملی انتہائی اہمیت رکھتی ہے اور ایسی لڑائیوں سے بچنا چاہیے جن میں فتح کا کوئی امکان نہ ہو۔

تاہم، فلسطین اور لبنان میں عوام کی جدوجہد کو صرف روایتی جنگی حکمت عملی کے تناظر میں نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ اس میں جہاد کا تصور بھی شامل ہے جو ایک روحانی اور مقدس مقصد کے تحت کی جانے والی جدوجہد ہے۔ اس مضمون میں جنگی طاقت کے حصول، دفاعی حکمت عملی، اور جہاد کے اصولوں کو ملا کر اس قول کا تجزیہ کیا جائے گا۔

جنگی طاقت میں اضافہ اور حکمت عملی:

فلسطین اور لبنان کے عوام کو اپنے دفاع اور آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے ایک بنیادی چیلنج کا سامنا ہے: اسرائیل کی طرف سے طاقت کا بے پناہ عدم توازن۔ اسرائیل ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ فوجی اور اقتصادی طاقت رکھتا ہے، جبکہ فلسطین اور لبنان کو محدود وسائل اور بین الاقوامی حمایت کی کمی کا سامنا ہے۔ ایسے حالات میں سن زو کا قول ایک اہم درس دیتا ہے کہ جب تک آپ کی جنگی طاقت اتنی نہ ہو کہ فتح ممکن ہو، تب تک آپ کو جنگ میں شامل ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔

تاہم، اس صورتحال کا مطلب یہ نہیں کہ فلسطین اور لبنان کے عوام اپنی جدوجہد ترک کر دیں۔ بلکہ یہ انہیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنی جنگی طاقت میں اضافہ کریں۔ اس کے لیے، انہیں اپنے وسائل، ہتھیاروں کی تعداد، عوامی حمایت، اور بین الاقوامی تعلقات کو مضبوط کرنا ہوگا۔ فلسطینی اور لبنانی تحریکیں، جیسے حماس اور حزب اللہ، مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ سفارتی اور عوامی حمایت کو بھی بڑھانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ حزب اللہ، مثلاً، اپنے دفاع کے لیے جدید ہتھیاروں اور تربیت یافتہ جنگجوؤں کا نیٹ ورک رکھتی ہے، جس کے باعث وہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی طاقت رکھتی ہے۔

جہاد کا تصور:

جہاد، اسلام میں ایک مقدس جنگ یا جدوجہد کا تصور ہے، جو ایک اعلیٰ اور نیک مقصد کے لیے کی جاتی ہے۔ فلسطین اور لبنان میں، بہت سے لوگ اپنی جنگ کو جہاد کے طور پر دیکھتے ہیں، یعنی یہ جدوجہد ان کی آزادی، عزت، اور خودمختاری کے لیے ہے۔ جہاد صرف جنگی یا عسکری جدوجہد کا نام نہیں، بلکہ اس کا مقصد اپنے حقوق اور انصاف کے لیے کسی بھی شکل میں جدوجہد کرنا ہے۔

جہاد کے اصولوں کے مطابق، جنگ کو تبھی شروع کیا جانا چاہیے جب اس کا مقصد انصاف ہو اور اس میں ظلم کا خاتمہ ہو۔ اگر فلسطین اور لبنان کے عوام اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور قبضے کے خلاف جہاد کر رہے ہیں، تو اس کا مقصد صرف فتح یا کامیابی نہیں، بلکہ یہ ایک مذہبی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ یہاں یہ قول کہ "جو جنگ جیتی نہ جا سکتی ہو، اسے شروع ہی نہیں کرنا چاہیے" جہاد کے تناظر میں کچھ مختلف نظر آتا ہے۔ کیونکہ جہاد ایک مقدس جدوجہد ہے، جو بسا اوقات ناممکن حالات میں بھی جاری رکھی جاتی ہے۔

جنگی طاقت میں اضافے کی ضرورت اور

 جہاد کا توازن:

جہاد اور سن زو کی حکمت عملی کے درمیان ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ کامیابی کے لیے صرف نیک نیتی اور مقصد کافی نہیں ہوتا۔ آپ کو اپنی جنگی طاقت اور وسائل کو بھی مضبوط کرنا ہوتا ہے تاکہ دشمن کے ساتھ برابری کا مقابلہ کیا جا سکے۔ فلسطین اور لبنان میں، اگرچہ لوگ اپنے حقوق اور آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن انہیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ طاقت اور وسائل کا توازن ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرے گا۔

جنگی طاقت میں اضافہ صرف ہتھیاروں تک محدود نہیں، بلکہ جدید تربیت، دفاعی نظام کی بہتری، اور بین الاقوامی حمایت کو بھی شامل کرتا ہے۔ حزب اللہ نے لبنان میں اپنی مزاحمت کی طاقت کو بڑھانے کے لیے جدید ہتھیاروں اور عسکری تربیت کا انتظام کیا، جس کی وجہ سے وہ اسرائیل کے خلاف کافی مزاحمت کرنے کے قابل ہوئی۔ اسی طرح فلسطینی تنظیمیں بھی اپنے دفاعی نظام اور سفارتی حکمت عملی کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

جہاد اور کامیابی کی حکمت عملی:

جہاد میں فتح ہمیشہ روایتی معنوں میں نہیں ہوتی، بلکہ یہ جدوجہد کی نیت اور مقصد میں ہوتی ہے۔ فلسطینی اور لبنانی عوام کی جہاد میں کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنی شناخت، عزت، اور حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ تاہم، جنگی طاقت میں اضافہ اس جدوجہد کو مزید مضبوط اور کامیاب بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

اس تناظر میں، سن زو کا قول فلسطین اور لبنان کی صورتحال میں اہمیت رکھتا ہے۔ جنگی طاقت میں اضافہ اور سفارتی حکمت عملی کا استعمال ان کی جدوجہد کو زیادہ مؤثر اور کامیاب بنا سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ، جہاد کے اصولوں کے مطابق، انہیں ظلم کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔


فلسطین اور لبنان میں اسرائیل کے خلاف جاری جنگ کو سن زو کے قول "جو جنگ جیتی نہ جا سکتی ہو، اسے شروع ہی نہیں کرنا چاہیے" اور جہاد کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ فلسطینی اور لبنانی عوام کے لیے اپنی جنگ کو جاری رکھنا ناگزیر ہے، کیونکہ یہ ان کی آزادی اور حقوق کی جدوجہد ہے۔ لیکن اس جدوجہد میں کامیابی کے لیے انہیں اپنی جنگی طاقت میں اضافہ کرنا ہوگا، تاکہ وہ اپنی جنگ کو مؤثر اور کامیاب بنا سکیں۔

جہاد اور سن زو کی حکمت عملی کے درمیان توازن پیدا کرنا اہم ہے۔ جہاد ایک مقدس جدوجہد ہے، لیکن اس کے ساتھ جنگی طاقت اور حکمت عملی کا استعمال بھی ضروری ہے تاکہ کامیابی حاصل کی جا سکے۔ فلسطین اور لبنان کے عوام کو اپنی مزاحمتی طاقت کو بڑھانے، عالمی حمایت حاصل کرنے، اور سفارتی ذرائع کا بہتر استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی جنگی جدوجہد کامیاب ہو سکے۔

تحریر و تحقیق

عطاءالمنعم

واہ کینٹ پاکستان

.

.

Comments

Popular posts from this blog

House Designing

Round Stair

Online Training Courses

Online Training Courses Well Control School Overview Well Control School (WCS) offers IADC and IWCF accredited well control training for drilling, workover/completion, coiled tubing, snubbing and wireline operations. WCS courses are available in instructor-led, web-based and computer-based format, and are accredited by IACET for CEU credits at the introductory, fundamental and supervisory levels. System 21 e-Learning The System 21 e-Learning program provided by Well Control School uses interactive tasks and role-playing techniques to familiarize students with well control concepts. These self-paced courses are available in web-based and computer-based format. This program offers significant cost savings, as training is available at any location and any time around the world with 24/7 customer support. Classroom Training Well Control School provides IADC and IWCF accredited courses led by certified subject-matter experts with years of field experience. Courses are of...

ہم نہریں بنانے لگے ہیں.

ہم نہریں بنانے لگے ہیں.  پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پانی کے مؤثر انتظام میں مسلسل ناکام رہا ہے۔ بدقسمتی سے، یہاں پانی کے ذخائر اور نہریں بنانے جیسے قومی مفاد کے منصوبوں پر سیاست اور تعصب غالب آ جاتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ جیسے ہی کوئی حکومت بڑا آبی منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کرتی ہے، کچھ عناصر اس کے خلاف احتجاج، جلسے اور جلوس شروع کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً، کئی اہم منصوبے یا تو التوا کا شکار ہو جاتے ہیں یا کبھی مکمل ہی نہیں ہو پاتے، جس سے نہ صرف زراعت بلکہ ملک کی معیشت اور توانائی کے شعبے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے برعکس، دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک بشمول چین، پانی کو ایک قیمتی قومی اثاثہ سمجھ کر اس کے مؤثر استعمال پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ وہاں نہروں، ڈیموں، اور واٹر مینجمنٹ سسٹمز کو قومی ترقی کا ستون سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں اگر عوام اور حکومتیں اس شعور کے ساتھ متحد ہو جائیں کہ پانی کا انتظام نسلوں کی بقا کے لیے ضروری ہے، تو شاید ہم بھی پانی کے موجودہ بحران پر قابو پا سکیں اور ایک پائیدار مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔   چین میں جنوب سے شمال پانی کی منتقلی کا منصوبہ (So...