"چائے پہ آ جاؤ"
"سوئٹزرلینڈ کی تنہائی: خوبصورتی کے پردے میں چھپی خاموش اذیت"
سوئٹزرلینڈ، ایک ایسا ملک جسے دنیا بھر میں قدرتی خوبصورتی، معاشی استحکام، مثالی شہری سہولیات، اور پُرامن طرزِ زندگی کے باعث رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ برف سے ڈھکے پہاڑ، نیلے شفاف جھیلیں، صاف ستھری سڑکیں، اور ترتیب و تہذیب کی انتہا کو چھوتا ہوا معاشرہ۔ اگر کوئی شخص دنیا کے سب سے خوبصورت، ترقی یافتہ، اور محفوظ ترین ممالک کی فہرست بنائے تو سوئٹزرلینڈ اس کے اولین نمبروں میں ضرور شامل ہوگا۔
لیکن کیا یہ سب کچھ انسان کی ذہنی اور جذباتی تسکین کے لیے کافی ہے؟ کیا خوشحالی، صفائی، اور تنہائی پسند معاشرتی اصول انسانی فطرت کے اس تقاضے کو پورا کر سکتے ہیں جو اسے سماجی ربط، جذباتی بانٹ اور بین الانسانی تعلقات کا طلب گار بناتا ہے؟ شاید نہیں۔
یہی وہ سوال ہے جو سوئٹزرلینڈ میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح کو سمجھنے کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح یہاں بھی ذہنی صحت ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے، اور اس کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنی زندگی خود ختم کرنے کے فیصلے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
خودکشی: ایک خاموش چیخ
سوئٹزرلینڈ میں خودکشی کی شرح مغربی یورپ کے کئی ممالک سے زیادہ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹوں کے مطابق ہر سال یہاں ہزاروں افراد اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد عمر رسیدہ افراد کی بھی ہوتی ہے، لیکن نوجوانوں اور متوسط عمر کے افراد میں بھی یہ رجحان تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے۔
یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں ہر طرف سکون ہے، کوئی شور شرابہ نہیں، جرائم کی شرح انتہائی کم، صحت و تعلیم کی سہولیات اعلیٰ درجے کی، اور اوسط آمدنی دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ۔ پھر آخر وہ کیا وجہ ہے کہ یہاں لوگ اندر سے ٹوٹ رہے ہیں؟
جواب ایک لفظ میں دیا جا سکتا ہے: "تنہائی"۔
تنہائی: ترقی یافتہ معاشرے کا اندھا کنارہ
سوئٹزرلینڈ کا معاشرہ بظاہر بڑا مہذب، بااخلاق اور نظم و ضبط کا پیکر ہے۔ یہاں لوگ کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتے، بغیر اجازت کے کسی کے دروازے پر دستک نہیں دیتے، نہ کوئی کسی کے معاملے میں "دخل اندازی" کو پسند کرتا ہے، اور نہ کوئی ایسے روابط کو فروغ دیتا ہے جو انہیں ان کی تنہائی کی محفوظ دیواروں سے باہر نکالیں۔
یہاں لوگ اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں۔ فلیٹس میں تنہا رہنے والوں کی تعداد حیران کن حد تک زیادہ ہے۔ کوئی پہاڑوں پر اکیلا چڑھ رہا ہے، کوئی جنگل میں اکیلا سائیکل چلا رہا ہے، کوئی جھیل کے کنارے اکیلا بیٹھا سوچوں میں گم ہے۔ یہاں گروپ کی صورت میں دوڑ لگانا، اکٹھے کھانا کھانا یا خاندان کے ساتھ وقت گزارنا روزمرہ کا معمول نہیں ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ زندگی کا صحت مند انداز ہے یا "خاموش تباہی" کا راستہ؟
سماجی رابطوں کی کمی: ایک سنجیدہ مسئلہ
انسانی فطرت سماجی ہے۔ ہم جذبات کا اظہار چاہتے ہیں، کسی سے بات کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، اپنی کامیابیاں بانٹنا اور ناکامیاں سنبھالنے کے لیے کندھا ڈھونڈنا ہماری نفسیات کا بنیادی حصہ ہے۔ لیکن جب معاشرہ حد سے زیادہ انفرادیت پرستی کی جانب جھک جائے، تو یہ سب کچھ معدوم ہونے لگتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں سوشل میڈیا سے دوری کو ایک صحت مند عمل سمجھا جاتا ہے، لیکن جب حقیقی زندگی میں بھی سماجی رابطے موجود نہ ہوں تو یہ "ڈیجیٹل ڈیٹوکس" تنہائی کو مزید گہرا کر دیتا ہے۔
نہ دوستوں کی بیٹھک، نہ خاندان کے ساتھ گپ شپ، نہ محلے میں کوئی "چائے پہ آ جاؤ" کا کلچر۔ یہاں تک کہ پڑوسی بھی برسوں ایک دوسرے کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے۔
اکیلا پن اور ذہنی صحت
ماہرینِ نفسیات کی تحقیق بتاتی ہے کہ مسلسل تنہائی اور سماجی علیحدگی دماغی کیمیا کو متاثر کرتی ہے۔ انسان افسردگی، اینزائٹی، اور بسا اوقات خود کو "ناقابلِ قبول" سمجھنے لگتا ہے۔ جب انسان کے پاس کوئی ایسا نہ ہو جس کے ساتھ وہ اپنے دل کی بات کہہ سکے، تو وقت کے ساتھ اس کی اندرونی کشمکش بڑھتی جاتی ہے۔ یہی کشمکش رفتہ رفتہ مایوسی اور ناامیدی میں بدلتی ہے، اور بالآخر وہ وقت آ جاتا ہے جب انسان زندگی جیسے قیمتی تحفے سے منہ موڑ لیتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں کئی لوگ خودکشی سے قبل کوئی علامت ظاہر نہیں کرتے، کوئی نوٹ نہیں چھوڑتے، کوئی شکایت نہیں کرتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کوئی سننے والا نہیں۔
بڑھتی ہوئی عمر اور بڑھتی ہوئی تنہائی
سوئٹزرلینڈ میں عمر رسیدہ افراد کی ایک بڑی تعداد تنہائی کا شکار ہے۔ اولاد عموماً بالغ ہونے کے بعد الگ ہو جاتی ہے، اور والدین اپنی زندگی کا بقیہ حصہ تنہائی میں گزارتے ہیں۔ کئی بزرگ افراد ریٹائرمنٹ کے بعد مکمل طور پر سوسائٹی سے کٹ جاتے ہیں، اور ان کا واحد سہارا صرف ایک اخبار، یا کبھی کبھار آنے والی ڈاک ہوتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں اگر ذہنی بیماری یا افسردگی کا حملہ ہو جائے تو اس سے نکلنے کا راستہ بہت کم بچتا ہے۔
ثقافتی عوامل اور جذباتی اظہار کی کمی
سوئس کلچر میں جذبات کا کھل کر اظہار کم ہی ہوتا ہے۔ یہاں لوگ اپنی خوشی اور غم دونوں کو اندر ہی رکھنا پسند کرتے ہیں۔ جذباتی معاملات پر بات کرنا، مدد مانگنا، یا کسی سے دلی گفتگو کرنا ایک "ذاتی معاملہ" سمجھا جاتا ہے۔ اس رویے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کے اندر جذبات کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے، اور وہ کسی بھی وقت ذہنی طور پر ٹوٹ سکتا ہے۔
کیا کیا جا سکتا ہے؟
یہ مسئلہ صرف حکومتی سطح پر حل ہونے والا نہیں، بلکہ سماجی شعور کی ضرورت ہے۔ سوئٹزرلینڈ جیسے مہذب معاشرے میں بھی اب اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ:
1. ذہنی صحت کے لیے بات چیت ضروری ہے۔
انسان کو سننے والا، سمجھنے والا اور قبول کرنے والا کوئی چاہیے۔
2. سماجی میل جول کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔
محلے کی سطح پر پروگرامز، خاندانی تقریبات، اور مشترکہ سرگرمیوں کا فروغ کیا جائے۔
3. تعلیمی اداروں میں ذہنی صحت کی تعلیم دی جائے۔
نوجوانوں کو جذباتی سنبھال کے طریقے سکھائے جائیں۔
4. دفاتر اور ورک پلیسز میں جذباتی سہارا مہیا کیا جائے۔
سپورٹ گروپس، کونسلنگ اور گروپ تھراپی کو عام کیا جائے۔
5. میڈیا کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
ایسے موضوعات کو ڈراموں، دستاویزی فلموں، اور مضامین کا حصہ بنایا جائے تاکہ آگہی بڑھے۔
سوئٹزرلینڈ کی خاموش جھیلیں، برف سے ڈھکے پہاڑ اور خوشبودار ہوا بلاشبہ دل کو سکون دیتی ہیں، لیکن اگر انسان کے اندر تنہائی کا طوفان برپا ہو تو یہ تمام ظاہری خوبصورتی بے معنی ہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ہونا ضروری ہے، مگر صرف مادی سہولتوں سے نہیں، بلکہ جذباتی ربط، بین الانسانی محبت اور سماجی گرم جوشی سے۔
سوئٹزرلینڈ کی بلند شرحِ خودکشی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ انسان کو صرف معاشی یا جسمانی سہولتیں نہیں، بلکہ دل سے دل کا رشتہ بھی درکار ہے۔ ایک ایسا رشتہ جو اسے یہ یقین دے کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔
تحریر و تحقیق
عطاءالمنعم
واہ کینٹ پاکستان
.
.
Comments
Post a Comment