"جے شری رام" ایک ہندو مذہبی نعرہ ہے جو بھگوان رام کے احترام اور عقیدت کے اظہار کے لیے بولا جاتا ہے۔ یہ جملہ خاص طور پر ہندو برادری میں مذہبی تقریبات، عبادات، اور جلوسوں میں استعمال ہوتا ہے۔
"جے شری رام" — نعرہ، نظریہ یا شدت پسندی؟ ایک تنقیدی جائزہ موجودہ حالات کے تناظر میں
تعارف:
"جے شری رام" کا نعرہ صدیوں سے ہندوؤں کے لیے عقیدت، محبت اور روحانیت کا استعارہ رہا ہے۔ یہ نعرہ بھگوان رام کی ستائش میں بولا جاتا رہا ہے، جنہیں ہندو دھرم میں سچائی، فرض شناسی اور اخلاقی عظمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج اسی نعرے کو بعض انتہا پسند عناصر نے مذہبی شدت پسندی، اقلیتوں کو دبانے، اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک ہتھیار بنا دیا ہے۔ خاص طور پر بھارت میں مسلمانوں کو زبردستی "جے شری رام" کہلوانا ایک خطرناک رجحان کی علامت بن چکا ہے۔
تاریخی پس منظر:
ماضی میں یہ نعرہ صرف عبادات، جلوسوں، یا بھجنوں میں سنا جاتا تھا۔ لیکن بابری مسجد کی شہادت (1992) کے بعد اس نعرے کا سیاسی رنگ گہرا ہوتا چلا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) جیسے گروہوں نے رام جنم بھومی تحریک کو ہندو تشخص کی بازیافت کے طور پر پیش کیا، اور "جے شری رام" اس تحریک کا نعرہ بن گیا۔
نعرہ اب عقیدت نہیں، زبردستی کا آلہ:
2014 کے بعد نریندر مودی کی حکومت کے زیرِ سایہ مذہبی انتہا پسندی میں واضح اضافہ دیکھا گیا۔ اب یہ نعرہ کئی جگہوں پر نہ صرف اقلیتوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے بلکہ مسلمانوں سے زبردستی بلوایا جانا عام ہوگیا ہے۔ کئی ویڈیوز، رپورٹس اور عینی شاہدین کے بیانات کے مطابق ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں مسلمانوں کو مارنے سے پہلے ان سے "جے شری رام" کہلوایا گیا۔
چند واقعات کی جھلک:
جھارکھنڈ (2019): تبریز انصاری نامی نوجوان کو چوری کے الزام میں پکڑ کر گھنٹوں مارا گیا اور بار بار "جے شری رام" بولنے کو کہا گیا۔ بعد میں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا۔
اتر پردیش، دہلی، بہار: متعدد مقامات پر گاؤ رکشا کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان سے یہ نعرہ زبردستی بلوایا گیا۔
یہ واقعات نہ صرف بھارتی آئین کے خلاف ہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔
عدالتیں اور میڈیا — خاموش تماشائی؟
بھارتی عدلیہ کی خاموشی اور میڈیا کی اکثریت کی جانبداری نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ جہاں ایک طرف عدالتیں مقدمات کو طویل کرتی ہیں، وہیں میڈیا اکثر ان واقعات کو "افواہیں" یا "سیاسی سازش" قرار دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ متاثرین کو انصاف ملنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
سیاسی پہلو:
"جے شری رام" اب محض مذہبی نعرہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بن چکا ہے۔ بی جے پی اور اس کے ذیلی تنظیمیں اسے ہندوتوا نظریہ کے فروغ کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس نعرے کے ذریعے اقلیتوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں، اور بھارت اب صرف ہندوؤں کا ملک ہے۔ ایسے میں سیکولر بھارت کا تصور شدید خطرے میں ہے۔
مسلمانوں کی نفسیاتی کیفیت:
جب کسی مذہب کے ماننے والوں کو ان کے عقائد کے خلاف کچھ بولنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ ان کی عزتِ نفس اور عقیدے پر کاری ضرب ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے "جے شری رام" بولنا ایسا ہی ہے جیسے کسی ہندو سے زبردستی "اللہ اکبر" کہلوایا جائے — یہ صرف الفاظ نہیں، بلکہ عقیدے کی بنیادیں ہلا دینے والی بات ہے۔
بین الاقوامی ردعمل اور انسانی حقوق کی تنظیمیں:
ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور اقوام متحدہ جیسے ادارے بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی پر متعدد بار تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ مگر بھارتی حکومت ان تنقیدوں کو "اندرونی معاملات" کہہ کر رد کر دیتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر اثرات:
موجودہ حالات میں پاک-بھارت تعلقات نہایت کشیدہ ہیں۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے، لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں، اور اقلیتوں پر بڑھتے مظالم نے دونوں ممالک میں نفرت کی فضا کو اور گہرا کر دیا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتا ہے۔ نتیجتاً، پاکستان میں بھی عوامی سطح پر غصہ اور ردعمل بڑھتا ہے، جو تعلقات کو مزید خراب کرتا ہے۔
پاکستانی تناظر:
پاکستان کے عوام، میڈیا اور حکومت اس شدت پسندی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، مگر اکثر یہ آوازیں بھارتی حکومت کے کانوں تک نہیں پہنچتیں۔ بھارت میں اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کو دیکھ کر پاکستانی معاشرہ بھی مزید دفاعی اور ردعمل پسند ہو جاتا ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف سفارتی تعلقات بلکہ عوامی رابطوں پر بھی پڑتے ہیں۔
سول سوسائٹی کا کردار:
بھارت اور پاکستان کی سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور بین المذاہب مکالمے کے حامی افراد کے لیے یہ وقت نہایت نازک ہے۔ اگر وہ اس شدت پسندی کے خلاف منظم ہو کر آواز نہیں اٹھائیں گے تو پورا خطہ مذہبی انتہا پسندی کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
حل کی تلاش:
1. قانونی اقدامات: بھارتی حکومت کو چاہیے کہ ایسے افراد اور تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کرے جو مذہب کو سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
2. تعلیمی اصلاحات: مذہبی رواداری، ہم آہنگی، اور احترامِ انسانیت کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
3. بین المذاہب مکالمہ: ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے رہنماؤں کو اکٹھا کر کے ایک مثبت بیانیہ تشکیل دینا ہوگا۔
4. میڈیا کی ذمہ داری: میڈیا کو نفرت پھیلانے کے بجائے امن، سچائی اور ہم آہنگی کے فروغ میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
"جے شری رام" بلاشبہ ایک عظیم مذہبی نعرہ ہے، لیکن جب اسے زبردستی کے ساتھ کسی دوسرے عقیدے کے ماننے والوں پر تھوپا جائے تو یہ نعرہ عقیدت سے زیادہ خوف، جبر اور امتیاز کی علامت بن جاتا ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ اپنے سیکولر آئین کے مطابق تمام مذاہب کے ماننے والوں کو برابری کے حقوق دے، اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف سخت اقدام کرے۔ بصورت دیگر، یہ آگ نہ صرف بھارت بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے امن کو خاکستر کر سکتی ہے۔
نئی دہلی ،کانپور19 اپریل 2025
ہندومذہبی شدت پسند ی اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتی نفرت سے بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔یہ نفرت دھیرے دھیرے بڑوں کے علاوہ اور بچوں میں بھی سرائت کر تا جا رہا ہے۔جس کی وجہ سے نابالغ مسلم بچے اس نفرت کا شکار ہو رہے ہیں ۔تازہ معاملہ اتر پردیش کے کانپور کا ہے جہاں ایک 13 سالہ نابالغ مسلم بچے کو جے شری رام کا نعرہ لگانے کیلئے مجبور کیا گیا اور بچے کے انکار کرنے پر چاقو سے جان لیوا حملہ کیا گیا ۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے مذہبی جبر، خصوصاً "جے شری رام" کا نعرہ زبردستی بلوائے جانے جیسے واقعات کے باوجود، بھارتی حکومت ان پر سنجیدگی سے ایکشن لینے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ بی جے پی حکومت کے تحت اکثر ایسے واقعات کو معمولی قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا متاثرہ افراد کی بجائے انہی پر الزام دھرا جاتا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کی خاموشی، یا بعض اوقات جانبداری، اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیتی ہے۔ عدالتیں بھی تاخیر سے کام لیتی ہیں اور زیادہ تر متاثرین انصاف سے محروم رہتے ہیں، جس سے اقلیتوں میں بے بسی کا احساس مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
حکومتی رویے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یا تو ایسے شدت پسند عناصر کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے، یا پھر حکومت خود اس نظریے سے نظریاتی ہم آہنگی رکھتی ہے۔ بین الاقوامی دباؤ کے باوجود، بھارتی حکومت مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے اکثر ان واقعات کو "انفرادی معاملات" قرار دے کر ان کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ غیر سنجیدہ رویہ نہ صرف بھارت کے آئین کی روح کے خلاف ہے بلکہ اس کی عالمی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ اگر یہ رویہ جاری رہا تو بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے لیے جینا مزید مشکل ہو جائے گا، اور خطے میں شدت پسندی کو مزید ہوا ملے گی۔
جے شری رام، پہلگام حملہ اور تیسری قوت کی سازش — 2025 کے تناظر میں
2025 میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنی ہے۔ "جے شری رام" کا نعرہ اب عبادت سے زیادہ ایک سیاسی اور نفسیاتی ہتھیار بن چکا ہے، جو عوامی مقامات، ٹرینوں، بازاروں اور تعلیمی اداروں تک پھیل چکا ہے۔ کئی مقامات پر مسلمانوں سے زبردستی یہ نعرہ بلوایا گیا، بعض اوقات تو تشدد اور ہلاکتوں کی صورت میں۔ ایسے واقعات نے نہ صرف بھارتی مسلمانوں میں خوف کی فضا پیدا کی ہے بلکہ خطے میں اقلیتوں کے حقوق پر سوال بھی اٹھائے ہیں۔
اسی دوران، جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گرد حملے نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ کئی جانیں ضائع ہوئیں، اور حملے کی ذمہ داری کے معاملے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ یہ وہ موقع تھا جہاں "تیسری قوت" — جو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو ہوا دینا چاہتی ہے — نے میدان سنبھالا۔ ایسی قوتیں، جو بھارت اور پاکستان کے درمیان بداعتمادی کو بڑھانا چاہتی ہیں، مذہبی نعروں کو اشتعال انگیزی کے لیے اور حملوں کو انتقام کے جواز کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اس ماحول میں نہ صرف دونوں ممالک کے امن پسند طبقات دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ اصل مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور عوامی جذبات کو بہکا کر انتہا پسندی کو بڑھایا جاتا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں، خاص طور پر بھارت، اندرونی شدت پسندی پر قابو پائیں، اور پہلگام جیسے حملوں کی مکمل غیر جانب دار تفتیش کروائیں تاکہ تیسری قوت کی چالاکیاں بے نقاب ہو سکیں۔ بصورت دیگر، یہ آگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
تحریر و تحقیق
عطاءالمنعم
واہ کینٹ پاکستان
.
.
Comments
Post a Comment