Skip to main content

"چکنز نیک"

"چکنز نیک"
پاکستان میں سیاحت کا رجحان زیادہ تر شمالی علاقوں کی طرف ہوتا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں جیسے کراچی، سندھ، لاہور، بہاولپور، راولپنڈی، اسلام آباد اور دیگر شہروں سے سیاح ہر سال بڑی تعداد میں مری، سوات، ہنزہ، گلگت، کاغان، ناران اور کشمیر کا رخ کرتے ہیں۔ یہ علاقے قدرتی حسن، پہاڑوں، جھیلوں، سرسبز وادیوں، خوشگوار موسم اور تاریخی اہمیت کے باعث سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں بھی شمال مشرقی علاقوں کی طرف سیاحت کا رجحان بڑھ رہا ہے، خصوصاً سِلیگُڑی ایک اہم داخلی دروازے کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں سے بھارتی سیاح دارجیلنگ، سکم، بھوٹان اور نیپال کی سرحدی خوبصورت وادیوں کا سفر کرتے ہیں۔ سلیگُڑی اپنی اسٹریٹیجک پوزیشن اور فطری خوبصورتی کی وجہ سے نہ صرف ایک اہم سیاحتی مقام ہے بلکہ شمال مشرقی بھارت میں داخل ہونے کا ایک مرکزی گیٹ وے بھی ہے، جو اسے بھارتی سیاحوں کے لیے ایک پسندیدہ مقام بناتا ہے۔
سلیگُڑی، بھارت کے شمالی مغربی بنگال میں واقع ایک پُررونق شہر ہے، جو مشرقی ہمالیہ کے دامن میں آباد ہے۔ اسے "شمال مشرقی بھارت کا دروازہ" بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ملک کے شمال مشرقی ریاستوں کو باقی بھارت سے ملانے والا اہم راستہ ہے۔

تعارف

مقام:
سلیگُڑی مہانندا ندی کے کنارے واقع ہے اور "چکنز نیک" کہلانے والے سلیگُڑی کاریڈور میں موجود ہے، جو بھارت کو شمال مشرقی علاقوں سے جوڑتا ہے۔

آبادی:
2011 کی مردم شماری کے مطابق اس کی شہری آبادی تقریباً 7 لاکھ ہے، جو کلکتہ اور آسنسول کے بعد مغربی بنگال کا تیسرا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔

معیشت:
سلیگُڑی کی معیشت "چار ٹی" (4 Ts) یعنی چائے، لکڑی، سیاحت اور ٹرانسپورٹ پر مبنی ہے۔ یہ نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش کی سرحدوں کے قریب ہونے کی وجہ سے تجارتی لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔

تاریخ و ثقافت

سلیگُڑی کبھی ایک چھوٹا گاؤں تھا، لیکن برطانوی دور میں جب یہاں چائے کے باغات لگائے گئے اور دارجیلنگ ہمالین ریلوے بنی، تب اس کی اہمیت بڑھ گئی۔ سلیگُڑی کا مطلب "کنکریوں کا ڈھیر" لیا جاتا ہے، جو یہاں کی زمین کی خاصیت کو ظاہر کرتا ہے۔

ذرائع آمد و رفت

فضائی سفر:
بگڈوگرا بین الاقوامی ہوائی اڈہ، سلیگُڑی کے قریب واقع ہے اور یہاں سے بھارت کے بڑے شہروں اور بین الاقوامی مقامات (جیسے پارو اور بنکاک) کے لیے پروازیں دستیاب ہیں۔

ریلوے:
نیو جلپائیگُڑی جنکشن (NJP) ایک بڑا ریلوے مرکز ہے جو بھارت کے مختلف حصوں سے سلیگُڑی کو جوڑتا ہے۔

سڑک:
قومی شاہراہوں کے ذریعے سلیگُڑی ہمسایہ ریاستوں اور ممالک سے اچھی طرح مربوط ہے۔

سیاحتی مقامات

دارجیلنگ ہمالین ریلوے:
یونیسکو کی عالمی ورثہ فہرست میں شامل، یہ ریلوے دارجیلنگ تک ایک خوبصورت سفر فراہم کرتی ہے۔

مہانندا وائلڈ لائف سینکچوری:
شہر کے مضافات میں واقع، جہاں ہاتھی، چیتے اور دیگر جنگلی حیات پائی جاتی ہے۔

سالوگارا خانقاہ:
ایک پُرسکون بدھ مت کی خانقاہ، جو 100 فٹ بلند اسٹوپا کے لیے مشہور ہے۔

اسکون مندر:
کرشن بھگوان کے لیے وقف ایک مشہور روحانی مرکز۔

ہانگ کانگ مارکیٹ:
ایک مصروف بازار جہاں الیکٹرانکس سے لے کر کپڑے تک ہر چیز دستیاب ہے۔

آب و ہوا

سلیگُڑی میں مرطوب ذیلی استوائی (humid subtropical) موسم پایا جاتا ہے، جس میں گرمیاں گرم، برسات کا موسم (جون سے ستمبر) کافی نم اور سردیاں ہلکی ٹھنڈی ہوتی ہیں۔

سلیگُڑی کا علاقہ، جسے "چکنز نیک" یا "سلیگُڑی کاریڈور" بھی کہا جاتا ہے، پاکستان، چین، اور بنگلہ دیش کے لیے جغرافیائی، اسٹریٹیجک، اور تجارتی لحاظ سے غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔

1. پاکستان کے مفادات:

جغرافیائی اہمیت پر نگاہ:
سلیگُڑی کاریڈور بھارت کا واحد زمینی رابطہ ہے جو اسے شمال مشرقی ریاستوں سے جوڑتا ہے۔ پاکستان کی دفاعی اور اسٹریٹیجک پالیسی میں یہ علاقہ ہمیشہ ایک کمزور کڑی کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔

چین-پاکستان اسٹریٹیجک الائنس:
اگر کبھی کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے، تو پاکستان اور چین دونوں اس علاقے پر نظریں رکھتے ہیں، کیونکہ یہ بھارت کی اندرونی مواصلاتی کمزوری ہے۔

2. چین کے مفادات:

بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں پر نظر:
چین، اروناچل پردیش کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے۔ سلیگُڑی کاریڈور چین کے لیے ایک ممکنہ اسٹریٹیجک مقام ہے، کیونکہ اس کی بندش سے بھارت کا شمال مشرق بھارت سے کٹ سکتا ہے۔

بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو (BRI):
چین کی خواہش ہے کہ بنگلہ دیش اور نیپال کو BRI سے منسلک کیا جائے، اور سلیگُڑی کا علاقہ اس میں رکاوٹ بن سکتا ہے یا چین کے لیے اہم گزرگاہ بن سکتا ہے۔

بھارت کو محدود کرنا:
چین کی خارجہ پالیسی میں سلیگُڑی کاریڈور کو "چوک پوائنٹ" سمجھا جاتا ہے، جہاں سے بھارت پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔

3. بنگلہ دیش کے مفادات:

تجارت و ترسیل:
سلیگُڑی بنگلہ دیش کے لیے زمینی تجارت کا اہم راستہ ہے، خاص طور پر نیپال اور بھوٹان کے ساتھ تجارت کے لیے۔

ٹرانزٹ رسائی:
بھارت کے ساتھ معاہدوں کے تحت بنگلہ دیش نیپال اور بھوٹان کو سلیگُڑی کے راستے سے تجارتی رسائی دیتا ہے، جس سے اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

چین-بنگلہ دیش قریبی تعلقات:
اگر چینی انفراسٹرکچر پروجیکٹس (مثلاً بندرگاہیں، شاہراہیں) بنگلہ دیش میں مکمل ہوتے ہیں تو سلیگُڑی کاریڈور ایک قدرتی رُخ اختیار کرے گا، جس سے بنگلہ دیش چین کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔

ملک مفاد

پاکستان اسٹریٹیجک چوک پوائنٹ پر نگاہ؛ بھارت کی اندرونی کمزوری کا فہم
چین شمال مشرقی بھارت پر دباؤ، BRI میں توسیع، بھارت کو محدود کرنا
بنگلہ دیش تجارتی راستہ، نیپال و بھوٹان تک رسائی، چین سے قریبی رابطے

بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ کشیدہ تعلقات کے تناظر میں سلیگُڑی کاریڈور (Siliguri Corridor) کی اسٹریٹیجک اہمیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ یہ علاقہ بھارت کا ایک انتہائی نازک اور حساس زمینی رابطہ ہے، جو اس کی مین لینڈ کو شمال مشرقی ریاستوں (جیسے آسام، میزورم، ناگا لینڈ وغیرہ) سے جوڑتا ہے۔

اس علاقے کی اہمیت — بھارت اور پاکستان کی کشیدگی کے تناظر میں:

1. جغرافیائی نکتہ نظر سے کمزور کڑی:

سلیگُڑی کاریڈور صرف 22 کلومیٹر چوڑا ہے۔

اگر کسی جنگی یا اسٹریٹیجک صورتحال میں اسے بند کر دیا جائے تو بھارت کا پورا شمال مشرقی علاقہ بھارت سے کٹ سکتا ہے۔

یہ بھارت کی ایک "جغرافیائی ایچلیز ہیل" (Achilles Heel) سمجھا جاتا ہے۔

2. پاکستان کا بالواسطہ فائدہ:

چین اور پاکستان اسٹریٹیجک اتحادی ہیں۔

چین اگر اس علاقے پر دباؤ ڈالے (مثلاً ڈوکلام جیسے تنازعات کے ذریعے)، تو بھارت کو مشرقی سرحد پر دفاعی دباؤ کا سامنا ہوگا، جو بالواسطہ طور پر پاکستان کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

3. سلیگُڑی کے ذریعے چین اور پاکستان کا اسٹریٹیجک اتحاد:

اگر چین مشرقی لداخ یا سکم کے محاذ پر سرگرم ہوتا ہے، تو پاکستان مغربی سرحد (کشمیر) پر سرگرمی بڑھا کر بھارت کو دو محاذوں پر الجھا سکتا ہے۔

اس صورت میں بھارت کا سلیگُڑی کاریڈور دباؤ میں آ سکتا ہے۔

4. سلیگُڑی پر حملے کی صورت میں ممکنہ نتائج:

بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں الگ تھلگ ہو جائیں گی۔

بھارت کو عسکری، اقتصادی، اور مواصلاتی لحاظ سے شدید نقصان ہوگا۔

علیحدگی پسند تحریکوں کو نئی جان مل سکتی ہے۔

5. بھارت کی جوابی تیاری:

بھارت نے اس علاقے میں سڑکوں، ریلوے، اور فوجی تنصیبات کو مضبوط بنایا ہے۔

چینی اثرورسوخ کے پیش نظر نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش کے ساتھ سفارتی روابط مزید مستحکم کیے جا رہے ہیں۔

سلیگُڑی کاریڈور بھارت کا شمال مشرق سے واحد زمینی رابطہ ہے۔

چین اور پاکستان کا اتحاد اس علاقے کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

کسی ممکنہ جنگ میں اس کاریڈور کو نشانہ بنانا بھارت کے لیے اسٹریٹیجک نقصان ہوگا۔

بھارت اس علاقے میں فوجی اور سفارتی سطح پر تیاری کر رہا ہے۔

سلیگُڑی کاریڈور سے متصل بھارت کے شمال مشرقی علاقے (جیسے آسام، ناگا لینڈ، منی پور، میزورم، تریپورہ، میگھالیہ، اروناچل پردیش) ایک طویل عرصے سے علیحدگی پسند تحریکوں اور شورش کا شکار رہے ہیں۔ ان تحریکوں کی جڑیں نسلی، ثقافتی، لسانی اور اقتصادی محرومیوں میں پیوست ہیں۔

اہم علیحدگی پسند تحریکیں:

1. ناگا لینڈ – NSCN (National Socialist Council of Nagaland):

مقصد: آزاد "ناگالِم" (Greater Nagaland) کا قیام۔

اسلحہ بردار تنظیم، جس نے بھارت سے آزادی کے لیے جنگ کی۔

کچھ دھڑے مذاکرات میں شریک ہو گئے، لیکن مکمل امن قائم نہیں ہو سکا۔

2. آسام – ULFA (United Liberation Front of Assam):

مقصد: آزاد آسام کا قیام۔

بھارت پر "اقتصادی استحصال" اور "ثقافتی شناخت کے خاتمے" کا الزام۔

فوجی کارروائیوں کے بعد سرگرمی میں کمی آئی، مگر ہمدردی اب بھی موجود ہے۔

3. منی پور – PLA (People’s Liberation Army):

مقصد: منی پور کی آزادی اور علیحدہ قوم کا قیام۔

پاکستان اور چین سے مبینہ روابط کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

4. میزورم – سابقہ Mizo National Front (MNF):

ماضی میں علیحدگی کی تحریک چلائی گئی، جسے 1986 میں بھارت کے ساتھ امن معاہدے کے ذریعے ختم کیا گیا۔

اب MNF سیاسی جماعت کی صورت میں سرگرم ہے۔

5. تریپورہ، میگھالیہ، اروناچل پردیش:

یہاں پر بھی قبائلی خودمختاری اور ثقافتی تحفظ کی بنیاد پر چھوٹی تحریکیں وقتاً فوقتاً اٹھتی رہی ہیں۔

تحریکوں کے اسباب:

نسلی و ثقافتی علیحدگی ان علاقوں کی اقوام خود کو بھارت کی مرکزی دھارے سے جدا محسوس کرتی ہیں۔
اقتصادی محرومی وسائل کی کمی، روزگار کے مواقع نہ ہونے کی شکایتیں عام ہیں۔
فوجی موجودگی و ظلم AFSPA جیسے قوانین کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ناراضی پائی جاتی ہے۔
مذہبی و لسانی اختلافات ہندو اکثریت والے بھارت میں قبائلی/عیسائی اکثریتی علاقوں کو شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔

سلیگُڑی کاریڈور کے لیے خطرات:

اگر بھارت کا رابطہ شمال مشرقی ریاستوں سے کٹ جائے تو ان تحریکوں کو "علیحدگی" کے لیے نیا حوصلہ مل سکتا ہے۔

موجودہ کشیدگیوں اور غیر ملکی اثرورسوخ کی موجودگی میں یہ علاقہ آسانی سے عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔
انڈیا سے موٹر سائیکل پر سیر و سیاحت کرنے والے سیاح اکثر شمال مشرقی بھارت کے حسین علاقوں کا سفر کرتے ہوئے سِلیگُڑی کے راستے دارجیلنگ، سکم، بھوٹان اور نیپال تک پہنچتے ہیں۔ اسی طرح بھارت سے پیدل سفر کر کے دنیا گھومنے والے معروف یوٹیوبرز بھی اکثر اسی علاقے سے گزر کر اپنا سفر شروع کرتے ہیں، اور ہچ ہائیکنگ کے ذریعے بین الاقوامی سرحدوں تک پہنچتے ہیں۔ یہ علاقہ نہ صرف خوبصورتی اور قدرتی مناظر کے لحاظ سے اہم ہے بلکہ اس کی جغرافیائی حیثیت بھی بے حد اسٹریٹیجک ہے۔ مجھے ان علاقوں کے بارے میں گہری دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب مجھے یہ ادراک ہوا کہ پاکستان کے پاس بھی سلیگُڑی کاریڈور کے حوالے سے اپنے مفادات کے تحفظ اور اثر و رسوخ کے امکانات موجود ہیں۔ چین اور بنگلہ دیش کے ساتھ قریبی تعلقات، خطے میں بدلتے ہوئے اتحاد، اور شمالی علاقوں سے ممکنہ اقتصادی و اسٹریٹیجک رسائی نے یہ باور کروایا کہ سلیگُڑی جیسے اہم خطے میں پاکستان کے لیے بھی کئی مواقع اور چیلنجز موجود ہیں، جنہیں درست سفارتی، اقتصادی اور علاقائی حکمت عملی کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سلیگُڑی کاریڈور نہ صرف بھارت کی سرزمین کا ایک کمزور حصہ ہے بلکہ اس کے ساتھ جُڑے علاقوں میں علیحدگی پسندی کے بیج بھی موجود ہیں، جو بھارت کے لیے اس خطے کو ایک دوہرا چیلنج بناتے ہیں: بیرونی خطرہ + اندرونی بے چینی. 

شمال مشرقی بھارت میں علیحدگی پسند تحریکوں کے کئی اسباب ہیں جو اس خطے کی مخصوص جغرافیائی، نسلی اور تاریخی حیثیت سے جُڑے ہوئے ہیں۔ سب سے نمایاں سبب نسلی اور ثقافتی علیحدگی کا احساس ہے۔ ان علاقوں کے قبائل اور اقوام خود کو بھارت کی مرکزی تہذیب، سیاست اور ثقافت سے الگ محسوس کرتے ہیں، کیونکہ ان کی زبان، رسم و رواج، اور مذاہب مختلف ہیں۔ دوسرا بڑا سبب اقتصادی محرومی ہے؛ دہلی سے دوری، ترقیاتی منصوبوں کی کمی، بنیادی سہولیات کا فقدان، اور روزگار کے محدود مواقع نے ان علاقوں کے نوجوانوں میں مایوسی کو جنم دیا ہے۔ تیسری اہم وجہ بھارتی فوج کی سخت کارروائیاں اور افسپہ (AFSPA) جیسے قوانین ہیں جن کے تحت فوج کو وسیع اختیارات حاصل ہیں، اور ان قوانین کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے واقعات نے عوام کے دلوں میں ریاست کے خلاف غصہ پیدا کیا ہے۔ اس کے علاوہ، لسانی اور مذہبی اختلافات نے بھی نفسیاتی طور پر ان علاقوں کے لوگوں کو مرکز سے دور کر دیا ہے، خاص طور پر وہاں کے عیسائی اور قبائلی گروہ جو خود کو ہندو اکثریتی نظام میں غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ ان تمام عوامل نے مل کر شمال مشرقی بھارت میں ایسی فضا پیدا کی ہے جہاں علیحدگی پسندی کو نہ صرف ہمدردی ملتی ہے بلکہ بعض اوقات مقامی حمایت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔

تحریر و تحقیق
عطاءالمنعم
واہ کینٹ پاکستان
.
.

Comments

Popular posts from this blog

House Designing

Round Stair

Online Training Courses

Online Training Courses Well Control School Overview Well Control School (WCS) offers IADC and IWCF accredited well control training for drilling, workover/completion, coiled tubing, snubbing and wireline operations. WCS courses are available in instructor-led, web-based and computer-based format, and are accredited by IACET for CEU credits at the introductory, fundamental and supervisory levels. System 21 e-Learning The System 21 e-Learning program provided by Well Control School uses interactive tasks and role-playing techniques to familiarize students with well control concepts. These self-paced courses are available in web-based and computer-based format. This program offers significant cost savings, as training is available at any location and any time around the world with 24/7 customer support. Classroom Training Well Control School provides IADC and IWCF accredited courses led by certified subject-matter experts with years of field experience. Courses are of...

ہم نہریں بنانے لگے ہیں.

ہم نہریں بنانے لگے ہیں.  پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پانی کے مؤثر انتظام میں مسلسل ناکام رہا ہے۔ بدقسمتی سے، یہاں پانی کے ذخائر اور نہریں بنانے جیسے قومی مفاد کے منصوبوں پر سیاست اور تعصب غالب آ جاتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ جیسے ہی کوئی حکومت بڑا آبی منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کرتی ہے، کچھ عناصر اس کے خلاف احتجاج، جلسے اور جلوس شروع کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً، کئی اہم منصوبے یا تو التوا کا شکار ہو جاتے ہیں یا کبھی مکمل ہی نہیں ہو پاتے، جس سے نہ صرف زراعت بلکہ ملک کی معیشت اور توانائی کے شعبے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے برعکس، دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک بشمول چین، پانی کو ایک قیمتی قومی اثاثہ سمجھ کر اس کے مؤثر استعمال پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ وہاں نہروں، ڈیموں، اور واٹر مینجمنٹ سسٹمز کو قومی ترقی کا ستون سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں اگر عوام اور حکومتیں اس شعور کے ساتھ متحد ہو جائیں کہ پانی کا انتظام نسلوں کی بقا کے لیے ضروری ہے، تو شاید ہم بھی پانی کے موجودہ بحران پر قابو پا سکیں اور ایک پائیدار مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔   چین میں جنوب سے شمال پانی کی منتقلی کا منصوبہ (So...