تعلیم، ہمارا ماضی اور آج
تعلیم ہر دور میں انسانی ترقی کا ایک لازمی حصہ رہی ہے، لیکن ہر دور کی تعلیم کا طریقہ اور مواد معاشرتی اور تکنیکی ترقیوں کے ساتھ بدلتا رہا ہے۔ اگر ہم اپنے دور کی تعلیم اور آج کے بچوں کی تعلیم کا موازنہ کریں، تو بہت سے اہم فرق سامنے آتے ہیں۔ جب ہم پڑھتے تھے، تب تعلیم کا انداز بہت مختلف تھا، اور آج کے بچے ایک بالکل مختلف تعلیمی ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
تعلیم کا نظام: ماضی اور حال
جب ہم پڑھتے تھے، تو تعلیمی نظام زیادہ تر روایتی تھا۔ اساتذہ کا کردار مرکزی تھا اور تعلیمی عمل یک طرفہ ہوتا تھا۔ استاد پڑھاتے تھے اور ہم ان کی باتوں کو یاد کرتے تھے۔ تختی پر لکھنا عام تھا اور اگر ہم تختی نہ لکھتے، تو ہمیں ڈانٹ پڑتی تھی۔ تختی لکھنے کا مقصد بچوں کو صاف اور درست لکھائی سکھانا ہوتا تھا۔ لکھائی کو بہتر کرنے کے لیے تختی اور سیاہی کا استعمال عام تھا، اور قلم دوات کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ ہم اپنے روزمرہ کے سبق تختی پر لکھتے تھے اور استاد ہماری تختی کو چیک کرتے تھے۔ اس دور میں لکھائی کی خوبصورتی اور صاف ستھری لکھائی پر خاص زور دیا جاتا تھا۔
اب، آج کے دور میں تختی کا زمانہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ قلم اور کاغذ کی جگہ کمپیوٹر، ٹیبلٹس، اور اسمارٹ فونز نے لے لی ہے۔ آج کے بچے زیادہ تر اپنی پڑھائی کمپیوٹر پر کرتے ہیں اور کاغذ پر لکھنے کی ضرورت کم ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ سے لکھائی کے معیار میں بھی فرق آیا ہے۔ جہاں پہلے ہاتھ سے لکھائی کو بہتر بنانے پر زور تھا، آج کل ٹائپنگ کی رفتار اور درستگی زیادہ اہم ہو گئی ہے۔
تعلیمی مواد میں تبدیلی
ماضی میں ہمیں جو تعلیمی مواد پڑھایا جاتا تھا، وہ بھی آج کے بچوں کے مواد سے بہت مختلف تھا۔ ہم بنیادی طور پر دینی تعلیم، حساب، مطالعہ پاکستان، اردو، اور چند دیگر مضامین تک محدود تھے۔ تعلیم کا مقصد زیادہ تر معلومات کو رٹنا ہوتا تھا، اور ہمیں اس بات پر زور دیا جاتا تھا کہ ہم جو کچھ بھی پڑھیں، اسے یاد کریں اور امتحان میں پیش کریں۔ نصاب میں سائنسی مضامین کی موجودگی کم ہوتی تھی، اور جو سائنس پڑھائی جاتی تھی، وہ بھی زیادہ نظریاتی ہوتی تھی۔ تجربات کرنے کا رجحان بہت کم تھا۔
آج کل کے بچے بہت وسیع اور متنوع مواد پڑھتے ہیں۔ ان کے نصاب میں سائنسی اور تکنیکی مضامین شامل ہیں، جن میں کمپیوٹر سائنس، کوڈنگ، ماحولیاتی سائنس، اور ٹیکنالوجی پر مبنی موضوعات شامل ہیں۔ بچے نہ صرف کتابوں سے علم حاصل کرتے ہیں بلکہ عملی تجربات اور پروجیکٹ بیسڈ لرننگ کے ذریعے بھی سیکھتے ہیں۔ انہیں تخلیقی اور تنقیدی سوچنے کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ مستقبل کے مسائل کا حل تلاش کر سکیں۔ سائنسی تجربات اور تحقیقی منصوبوں پر زور دیا جاتا ہے، جو کہ ہمارے وقت میں اتنا عام نہیں تھا۔
ٹیکنالوجی کی اہمیت
جب ہم تعلیم حاصل کر رہے تھے، تو ٹیکنالوجی کا کوئی خاص عمل دخل نہیں تھا۔ تعلیم کے بنیادی وسائل تختی، کتابیں، قلم دوات، اور چاک بورڈ تک محدود تھے۔ اساتذہ خود کتابوں سے پڑھ کر ہمیں پڑھاتے تھے اور ہم انہی کتابوں سے سبق یاد کرتے تھے۔ اگر کسی موضوع پر اضافی معلومات درکار ہوتی تو ہمیں کتب خانوں کا رخ کرنا پڑتا تھا اور وہاں سے کتابیں نکال کر پڑھنی پڑتی تھیں۔
آج کے دور میں ٹیکنالوجی نے تعلیم کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، اور ڈیجیٹل وسائل نے تعلیم کے طریقے کو بہت آسان اور دلچسپ بنا دیا ہے۔ آج کے بچے صرف کتابوں تک محدود نہیں ہیں؛ وہ آن لائن لیکچرز، ویڈیوز، اور مختلف تعلیمی ایپلیکیشنز کا استعمال کرتے ہوئے نئی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ ای لرننگ پلیٹ فارمز اور ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے بچے دنیا بھر کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں۔ اسمارٹ بورڈز، ٹیبلٹس، اور لیپ ٹاپس نے کلاس روم کے طریقہ کار کو تبدیل کر دیا ہے اور بچوں کو انٹرایکٹو اور عملی طریقوں سے سیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
امتحانی نظام اور کامیابی کا پیمانہ
ہمارے زمانے میں امتحانات کا طریقہ زیادہ تر تحریری ہوتا تھا اور طلباء کی کامیابی کا پیمانہ ان کے امتحانی نتائج پر منحصر ہوتا تھا۔ جو طالب علم زیادہ نمبر حاصل کرتا تھا، وہی کامیاب تصور کیا جاتا تھا۔ امتحانات کا طریقہ زیادہ تر حافظہ پر مبنی ہوتا تھا اور طلباء کو زیادہ تر رٹا لگانے پر زور دیا جاتا تھا۔
آج کل امتحانی نظام میں بھی بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ بچوں کی کارکردگی کا جائزہ صرف امتحانات کے ذریعے نہیں لیا جاتا بلکہ ان کے عملی کام، گروپ پروجیکٹس، اور تخلیقی صلاحیتوں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ ان کے تخلیقی مسائل حل کرنے کی صلاحیت، ٹیم ورک، اور پروجیکٹ مینجمنٹ جیسی صلاحیتوں کو بھی پرکھا جاتا ہے۔ اس سے بچوں کی مکمل ترقی کی جا سکتی ہے اور صرف یادداشت پر انحصار کرنے کی بجائے ان کی حقیقی قابلیت کو پہچانا جاتا ہے۔
استاد کا کردار
ہمارے زمانے میں استاد کا کردار بہت مرکزی تھا۔ استاد وہ ہوتا تھا جو تمام علم کا منبع ہوتا تھا اور ہم اس کے کہے ہوئے کو یاد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ استاد کی بات کو حرف آخر سمجھا جاتا تھا اور ان کی شخصیت کا طلباء پر گہرا اثر ہوتا تھا۔
آج کے دور میں استاد کا کردار بدستور اہم ہے، لیکن اب وہ صرف علم کا ذریعہ نہیں رہے۔ اب استاد ایک رہنما اور مشیر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، جو بچوں کو سیکھنے کے مختلف ذرائع فراہم کرتے ہیں اور انہیں رہنمائی فراہم کرتے ہیں کہ وہ خود اپنی تحقیق اور تلاش کریں۔ بچوں کو خود سے سوچنے اور سوال کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جو کہ ہمارے زمانے میں کم ہوتا تھا۔
تربیت کا فرق
ماضی میں عملی تربیت اور سائنسی تجربات کم ہوتے تھے۔ زیادہ تر تعلیم نظریاتی ہوتی تھی اور طلباء کو زیادہ وقت کتابیں پڑھنے اور یاد کرنے میں صرف کرنا پڑتا تھا۔ بچوں کو عملی زندگی کی تیاری کے لیے کم مواقع فراہم کیے جاتے تھے۔
آج کل کی تعلیم میں عملی تربیت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ بچوں کو پروجیکٹس اور سائنسی تجربات کے ذریعے عملی سیکھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ انہیں تخلیقی مسائل حل کرنے کی تربیت دی جاتی ہے اور جدید دنیا کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
نصاب میں تنوع
ہمارے زمانے میں نصاب میں تنوع کم ہوتا تھا۔ ہر بچے کو تقریباً ایک جیسے مضامین پڑھائے جاتے تھے اور انتخاب کے مواقع محدود ہوتے تھے۔ زیادہ تر بچے وہی مضامین پڑھتے تھے جو نصاب میں شامل ہوتے تھے اور خصوصی مضامین کا انتخاب کم ہوتا تھا۔
آج کل کے بچوں کو بہت زیادہ انتخابی مواقع ملتے ہیں۔ انہیں مختلف مضامین اور فیلڈز میں دلچسپی لینے کا موقع دیا جاتا ہے اور وہ اپنی پسند کے مطابق تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ انہیں سائنس، آرٹس، ٹیکنالوجی، زبانیں، اور دیگر بہت سے موضوعات میں انتخاب کی آزادی حاصل ہے۔
تعلیم کے میدان میں ماضی اور حال کا موازنہ کریں، تو واضح ہوتا ہے کہ تعلیم کا طریقہ کار اور مواد دونوں بہت بدل چکے ہیں۔ جہاں ماضی میں تعلیم زیادہ روایتی اور محدود تھی، وہیں آج کی تعلیم زیادہ جدید، ٹیکنالوجی پر مبنی، اور تخلیقی ہے۔ آج کے بچوں کو سیکھنے کے لیے زیادہ وسائل اور مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں اور انہیں مستقبل کے چیلنجز کے لیے بہتر طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔
تعلیمی نظام میں یہ تبدیلیاں معاشرتی اور تکنیکی ترقیوں کا نتیجہ ہیں اور یہ ظاہر کرتی ہیں کہ تعلیم کا مقصد صرف معلومات کا رٹنا نہیں بلکہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور انہیں عملی زندگی کے لیے تیار کرنا ہے۔
تحریر و تحقیق
عطاءالمنعم
واہ کینٹ پاکستان
.
.
Comments
Post a Comment