Skip to main content

Posts

زینۂ حیات: اشفاق احمد کی بصیرت انگیز کتاب "ازدواجی زندگی"

 زینۂ حیات: اشفاق احمد کی بصیرت انگیز کتاب "ازدواجی زندگی" اشفاق احمد کا شمار پاکستان کے معروف ادیبوں، دانشوروں اور کہانی نویسوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو ادب میں بے پناہ خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی تحریریں معاشرتی، روحانی اور انسانی نفسیات کے گہرے موضوعات پر مبنی ہوتی ہیں، اور ان کی ایک مشہور کتاب "زینۂ حیات" بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ "زینۂ حیات" اشفاق احمد کی ایسی تصنیف ہے جو ازدواجی زندگی، خاندان کی تعمیر، اور تعلقات کے مابین گہرائی کو موضوع بناتی ہے۔ یہ کتاب محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ اور روحانی رہنمائی ہے جس میں اشفاق احمد نے ازدواجی رشتوں کے مختلف پہلوؤں کو نہایت حکمت اور بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کتاب کا پس منظر اور مقصد "زینۂ حیات" کا مقصد صرف کہانی سنانا نہیں بلکہ قاری کو زندگی کے بارے میں سوچنے اور اس کے گہرے معنی تلاش کرنے کی تحریک دینا ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ایک قیمتی گائیڈ بن سکتی ہے جو ازدواجی اور عائلی زندگی میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں یا زندگی کے عمومی مسائل کے حل کے متلاشی ہیں۔ اشفاق احمد کی اس تحریر میں معاشرت...

میرا ہاکی کا سفر

 میرا ہاکی کا سفر میری ہاکی کا سفر 1981 میں شروع ہوا جب میں بونیر کے علاقے سواڑی بازار میں رہتا تھا اور میرا سکول ڈگر میں تھا۔ اُس وقت میں آٹھویں کلاس میں تھا، اور کھیل میں مہارت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتا تھا، لیکن اُس وقت میں ہاکی کا بہت اچھا کھلاڑی نہیں تھا۔ اُس وقت میری کھیل کی سمجھ محدود تھی، اور میں نے ہاکی کو محض ایک سرگرمی سمجھ کر کھیلا۔ پھر جب میں واہ کینٹ واپس آیا، تو ہاکی کے میدان میں میری زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ واہ کینٹ میں آنے کے بعد، میں نے زاکر ہاکی کلب میں شمولیت اختیار کی، اور اولمپین زاکر حسین صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان کی شفقت سے مجھے ہاکی کی مزید تکنیکی اور عملی پہلوؤں کو سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ زاکر ہاکی کلب میں مجھے اچھے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا، جس نے میری کھیل کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں میں نے چستگی کی مشقیں کیں، مخالفین کی حرکات کو سمجھنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا، اور جسمانی جھلکے دینے اور پک کنٹرول کرنے کی مہارت میں نمایاں بہتری حاصل کی۔ زاکر ہاکی کلب کی سخت تربیت اور مقابلے کے ماحول نے مجھے ایک مضبوط کھل...

میری کافی کی کہانی

 میری کافی کی کہانی فرانس کا سفر ہمیشہ سے ایک خواب جیسا تھا، لیکن 2022 میں یہ خواب حقیقت میں بدل گیا۔ میرے لیے یہ نہ صرف ایک نیا ملک دیکھنے کا موقع تھا بلکہ وہاں کی ثقافت، روایات، اور روزمرہ کی زندگی کا تجربہ کرنے کا بھی موقع ملا۔ جب میں فرانس پہنچا، تو ایک دلچسپ صورت حال کا سامنا ہوا، جس کا تعلق ایک عام سی چیز سے تھا: کافی۔ یورپ کے دل میں، فرانس اپنے مخصوص ذائقوں اور کھانے پینے کی عادات کے لیے جانا جاتا ہے، اور کافی اس ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ میں نے سوچا کہ فرانس میں جا کر ایک خوبصورت کافی شاپ میں بیٹھ کر کافی پینا ایک رومانوی خیال ہو گا، مگر جب میں پہلی بار ایک کافی شاپ میں داخل ہوا، تو میں حیران رہ گیا۔ مینو میں کافی کی اتنی زیادہ اقسام تھیں کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کون سی کافی آرڈر کروں۔ میں صرف اس امید پر بیٹھا کہ جو بھی کافی آئے گی، وہ بہترین ہو گی۔ پہلا تجربہ اچھا تھا، لیکن ذائقہ میرے لیے کچھ نیا تھا۔ ایسپریسو کی شدت، کپچینو کی کریمی جھاگ، اور لاتے کی ہمواری سب کچھ ایک ساتھ آزمانے کا خیال میرے ذہن میں آنے لگا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ بس جو کافی مل جائے، وہی پی لی جائے،...

پاکستان کی اج تک کی سب سے بہترین کتابیں.

 پاکستان کی اج تک کی سب سے بہترین کتاب. ادب سے شغف انسان کو فکری اور جذباتی طور پر جلا بخشتا ہے، اور یہی شوق جب دل میں گھر کر جائے تو ہمیشہ نئی اور اچھی تحریریں تلاش کرنے کی جستجو جاری رہتی ہے۔ اچھی تحریریں قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں، ان کی زبان کی مٹھاس، خیال کی گہرائی، اور اظہار کی خوبصورتی انسان کے ذہن اور دل کو چھو لیتی ہے۔ ایسی تحریروں کی تلاش زندگی بھر کے لیے ایک دلچسپ سفر بن جاتی ہے، جو ہر بار ایک نئی دنیا کی سیر کرواتی ہیں اور علم و تفکر کا نیا دروازہ کھولتی ہیں۔  شاہنامہ فردوسی (ترجمہ شدہ) "شاہنامہ فردوسی" فارسی ادب کی ایک عظیم تخلیق ہے جسے ابو القاسم فردوسی نے لکھا تھا۔ یہ کتاب ایران کی قدیم تاریخ، اساطیر اور حکمرانوں کی داستانوں پر مبنی ہے۔ فردوسی نے اپنے اس عظیم الشان کام میں شاہی خاندانوں کی حکومتوں اور جنگوں کے واقعات بیان کیے ہیں۔ یہ نہ صرف فارسی ادب میں بلکہ عالمی ادب میں بھی ایک عظیم کتاب سمجھی جاتی ہے اور اسے طاقت، انصاف، اور فرض شناسی کی کہانیوں کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ پاکستانی قارئین کے لیے فارسی کی ادبی عظمت سے روشناس ہونے کا ایک...

توجہ کی کمی (Attention Deficit)

  توجہ کی کمی (Attention Deficit) توجہ کی کمی (Attention Deficit) ایک نیوروڈیولپمنٹل بیماری ہے جسے عام طور پر توجہ کی کمی کا عارضہ (ADD) یا توجہ کی کمی اور حد سے زیادہ سرگرمی کا عارضہ (ADHD) کہا جاتا ہے۔ اس عارضے میں مبتلا افراد کو توجہ مرکوز رکھنے، کام مکمل کرنے، اور وقت کی منصوبہ بندی کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اسے مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے: غیر متوجہ قسم (ADD): اس میں فرد کو توجہ مرکوز رکھنے، منظم رہنے، اور کاموں کو مکمل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ حد سے زیادہ سرگرم اور غیر ارادی قسم (ADHD): فرد بہت زیادہ بے چین ہوتا ہے، ضرورت سے زیادہ بات کرتا ہے، اور بغیر سوچے سمجھے عمل کرتا ہے۔ مخلوط قسم (ADHD-C): اس میں توجہ کی کمی اور حد سے زیادہ سرگرمی دونوں کی علامات ہوتی ہیں۔ علامات میں بھول جانا، جلدی سے توجہ کا بٹ جانا، کاموں کو ٹالنا، اور لمبے وقت تک توجہ مرکوز نہ رکھ پانا شامل ہیں۔ علاج میں عام طور پر رویے کی تھراپی، طرز زندگی میں تبدیلیاں، اور بعض اوقات دوائیں شامل ہوتی ہیں۔ توجہ کی کمی کا عارضہ (ADD/ADHD) کا علاج مختلف طریقوں سے کیا جا سکتا ہے، جو ہر فرد کی ضروریات کے مطابق ہوت...

معاشرتی مسائل اور ان کا تدارک

 معاشرتی مسائل اور ان کا تدارک  زہریلے لوگوں سے نمٹنے کا فن: زہریلے افراد معاشرتی، جذباتی اور نفسیاتی ماحول کو بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں۔ ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے جو نہ صرف ان کی اپنی زندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ ان کے اردگرد کے لوگوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ افراد آپ کے ذہنی سکون کو ختم کرتے ہیں، آپ کے اعتماد کو کم کرتے ہیں، اور اکثر ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جس میں تنازعہ اور تناؤ پیدا ہوتا ہے۔ اس مضمون میں ہم زہریلے لوگوں کی خصوصیات، ان کے اثرات، اور ان سے نمٹنے کے طریقوں پر غور کریں گے۔ زہریلے افراد کی خصوصیات زہریلے افراد کی چند اہم خصوصیات ہوتی ہیں جو انہیں پہچاننے میں مدد دیتی ہیں:  مسلسل تنقید:  یہ افراد ہمیشہ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کی تنقید کا مقصد تعمیری نہیں ہوتا، بلکہ وہ دوسروں کو نیچا دکھانے اور ان کے اعتماد کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہر موقع پر دوسروں کی خامیوں اور غلطیوں کو اجاگر کرتے ہیں اور کبھی ان کی کامیابیوں کو تسلیم نہیں کرتے۔  دھوکہ دہی اور فریب:  زہریلے افراد اکثر جھوٹ بولتے ہیں یا دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں تاکہ اپنی مرضی ک...

قیام پاکستان سے پہلے اور بعد پاکستان میں بسنے والی قومیں، دو قومی نظریہ اور اپس کے تعلقات.

 قیام پاکستان سے پہلے اور بعد پاکستان میں بسنے والی قومیں، دو قومی نظریہ اور اپس کے تعلقات.  قیام پاکستان سے پہلے قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان میں مختلف قومیں، زبانیں، اور مذاہب آباد تھے۔ اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی دو بڑی قومیں موجود تھیں جو معاشرتی، مذہبی، اور تہذیبی لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھیں۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو سیاسی اور معاشرتی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دو قومی نظریہ (Two-Nation Theory) کا بنیادی تصور یہ تھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں جن کے مذہبی، ثقافتی، اور سماجی اقدار ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ نظریہ سب سے پہلے سر سید احمد خان نے اس وقت پیش کیا جب انہوں نے مسلمانوں کو ہندوؤں سے الگ سیاسی اور تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بعد میں علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح نے اس نظریے کو مزید پختہ کیا۔ خاص طور پر، 1930 میں علامہ اقبال نے اپنے خطبے میں اس بات کی وضاحت کی کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور ان کے لیے ایک الگ وطن کی ضرورت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد مختلف قومیں اس نئ...

میری دلچسپی سمندر کی وسعتیں اور آئس بریکنگ جہاز.

 میری دلچسپی سمندر کی وسعتیں اور آئس بریکنگ جہاز.  میری دلچسپی سمندر کی وسعتوں اور آئس بریکنگ جہازوں کی قوت میں گہرے عشق کی مانند ہے۔ قطبین کی برفانی ہوائیں، ٹھنڈی لہریں، اور ان جہازوں کی دیو ہیکل طاقت مجھے سمندری علوم کی ایک نہ ختم ہونے والی دنیا کی طرف کھینچتی ہیں۔ آئس بریکنگ جہاز نہ صرف برف کو چیرتے ہیں، بلکہ میرے اندر پوشیدہ تجسس اور حیرت کو بھی بیدار کرتے ہیں۔ یہ صرف جہاز نہیں، بلکہ میرے لیے یہ ایسی کائناتی مشینیں ہیں جو سمندر کے رازوں کو فاش کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ ہر ٹوٹتی برف کی چٹان، ہر گہرائی میں چھپی حقیقت میری روح کی پیاس بجھاتی ہے۔ سمندر اور آئس بریکنگ جہازوں کی طاقت اور خوبصورتی میرے لیے کسی عظیم شاعری کی طرح ہیں، جو ہر بار نئی کہانی سناتے ہیں۔ سمندر کے اسرار اور آئس بریکنگ جہازوں کے علم میں میری دلچسپی ایک ایسے جذبے سے لبریز ہے جس کی گہرائی کو ناپا نہیں جا سکتا، جیسے سمندر کی گہرائیوں کا کوئی اختتام نہیں۔ یہ عشق، یہ جنون، میری زندگی کا محور ہے، جو مجھے ہمیشہ نئی مہمات کی طرف لے جاتا ہے۔ آئس بریکنگ بحری جہاز اور بحری علوم میں گہری دلچسپی کے باعث، یہ مضمون آپ کو ان...

امریکی ڈالر کا زوال: عالمی مالیاتی نظام میں ممکنہ تبدیلی

 امریکی ڈالر کا زوال: عالمی مالیاتی نظام میں ممکنہ تبدیلی دنیا کی معیشت میں امریکی ڈالر کی حکمرانی کا دور کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ 1944 میں بریٹن ووڈز معاہدے کے بعد سے، ڈالر کو عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت حاصل رہی ہے، اور اس کے ذریعے بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کی جاتی رہی ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں مختلف ممالک کے درمیان ڈالر پر انحصار کم کرنے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے، جسے کچھ ماہرین "ڈی ڈالرائزیشن" کہتے ہیں۔ چین، روس اور سعودی عرب جیسے ممالک، جو اپنی معیشتوں میں مزید خود مختاری چاہتے ہیں، ایک متبادل عالمی مالیاتی نظام کی تشکیل کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈی ڈالرائزیشن کا پس منظر ڈی ڈالرائزیشن کا تصور نیا نہیں ہے، لیکن اس کی حالیہ رفتار میں اضافے کی وجہ عالمی جغرافیائی سیاسی حالات ہیں۔ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران اور اس کے بعد کی کساد بازاری نے دنیا کی معیشت پر امریکی اثر و رسوخ کے منفی پہلوؤں کو نمایاں کیا۔ بہت سے ممالک نے یہ سوچنا شروع کیا کہ اگر وہ امریکی مالیاتی نظام پر انحصار کرتے رہے تو مستقبل میں کسی بحران کی صورت میں وہ کس قدر متاثر ہوں گے۔ اس کے علاوہ، 2022 میں روس پر ...

The Recession Proof Freelancer(Translation)

  ریسیشن پروف فری لانسر مشکل اوقات میں ترقی کرنے کے لیے 12 نکاتی منصوبہ (ایک فری لانس لکھاری سے جو ان حالات سے گزری ہے) کیرول ٹائس 2020 TiceWrites LLC پہلا ایڈیشن، اپریل 2020 اس ای بک میں فراہم کردہ معلومات صرف عمومی معلوماتی مقاصد کے لیے ہیں۔ اس ای بک میں شامل معلومات، مصنوعات، خدمات، یا متعلقہ گرافکس کے بارے میں کسی بھی مقصد کے لیے کوئی بھی دعوے یا ضمانتیں ظاہر یا مضمر نہیں کی گئی ہیں۔ اس ای بک کا کوئی بھی حصہ کسی بھی شکل یا طریقے سے، الیکٹرانک یا میکانیکی، مصنف کی تحریری اجازت کے بغیر دوبارہ پیدا یا منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ تعارف: مشکل وقت کے بارے میں میرا تجربہ اگر آپ یہ ای بک پڑھ رہے ہیں، تو ممکن ہے کہ آپ پر کوئی مشکل وقت آیا ہو۔ آپ جاننا چاہتے ہیں کہ کس طرح ایک فری لانسر کے طور پر کساد بازاری میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، اور آپ کو یہ سمجھنے میں مدد چاہیے کہ کس کی رہنمائی پر اعتماد کیا جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے مجھے تلاش کیا! اگر آپ مجھے میرے بلاگ "Make a Living Writing" سے نہیں جانتے، تو اپنا تعارف کروانے کی اجازت دیں: میرا نام کیرول ٹائس ہے، میں سیئٹل میں رہتی ہوں،...