Skip to main content

وادیٔ سوات و کالام کا دلکش سفر نامہ

وادیٔ سوات و کالام کا دلکش سفر نامہ 

12 جون 2025 کی شام 6 بجے، جب گرمیوں کی شدید دھوپ زمین پر اپنی شدت برسا رہی تھی، ہم نے وادیٔ سوات کے خوبصورت علاقے کالام کی طرف روانگی کا ارادہ کیا۔ صبح سے تیاری کر رہے تھے، ضروری سامان گاڑی میں رکھا اور براستہ موٹر وے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھتے تو ہر طرف ہریالی، کھلے کھیت اور پہاڑوں کی قطاریں ایک دلکش منظر پیش کر رہی تھیں۔ دور کہیں پرندوں کی چہچہاہٹ اور ہلکی ہوا کے جھونکے دل کو راحت بخش رہے تھے۔ موٹر وے پر گاڑی رواں دواں تھی، اور سفر نہایت آسان اور ہموار محسوس ہو رہا تھا۔

راستے میں کہیں کہیں چھوٹے قصبے اور بستیاں نظر آئیں، جہاں کے لوگ اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں مگن تھے۔ پہاڑوں کا سلسلہ قریب آتا جا رہا تھا اور فضا کی خنکی بڑھتی جا رہی تھی۔ چند گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم منگورہ بازار پہنچے۔ منگورہ شہر کا اپنا ہی رنگ اور مزاج ہے۔ یہاں کی گلیوں میں مقامی لوگوں کی چہل پہل، بازاروں کی رونق، اور خوشبودار کھانوں کی مہک نے ہمیں اپنا اسیر بنا لیا۔ ہم نے شہر کے ایک معیاری ہوٹل میں قیام کیا، سامان رکھا اور تھکن اتارنے کے لیے کچھ دیر آرام کیا۔ رات کو منگورہ بازار کی سیر کی، کچھ ضروری اشیاء خریدیں اور مقامی کھانوں کا مزہ بھی لیا۔ رات کو ہوٹل کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو منگورہ کی روشنیوں کا منظر بڑا دلکش محسوس ہوا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے دل کو مسرت بخش رہے تھے۔

اگلی صبح ہم تازہ دم ہو کر کالام کی طرف روانہ ہوئے۔ گاڑی سڑک پر رواں تھی اور ہماری نظریں دریائے سوات کے ساتھ ساتھ چلنے والے حسین نظاروں میں کھو گئیں۔ راستے میں مدین اور بحرین کے خوبصورت علاقے آئے۔ مدین کا پل اور اس کے نیچے بہتا دریا، بحرین کا پرسکون ماحول اور بازار، ہر منظر دل کو چھو لینے والا تھا۔ دریائے سوات کا شفاف اور نیلگوں پانی، اس کے کنارے بلند و بالا پہاڑ، اور ان پہاڑوں کے دامن میں بکھرے ہوئے سرسبز درخت ایک مکمل قدرتی تصویر پیش کر رہے تھے۔

بحرین سے آگے، کالام سے تقریباً 36 کلومیٹر پہلے، دریائے سوات کے کنارے ایک خوبصورت جگہ دیکھی تو گاڑی روک لی۔ یہاں کی ٹھنڈی اور صاف فضا، بہتا ہوا نیلگوں پانی اور آس پاس کے سرسبز پہاڑ دل کو بہت بھائے۔ ہم نے آم اور خوبانی کا لطف لیا جو کہ سفر کی خاص سوغات تھی۔ دریا کا پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ اس میں پاؤں رکھنا مشکل محسوس ہوا مگر اسی احساس نے اس مقام کو یادگار بنا دیا۔ تھوڑی دیر یہاں رکنے کے بعد ہم نے دوبارہ کالام کی طرف سفر شروع کیا۔

دوپہر کے قریب ہم کالام پہنچے۔ کالام کی پہلی جھلک ہی دل کو لبھانے والی تھی۔ چاروں طرف بلند و بالا پہاڑ، بہتے چشمے، سرسبز وادیاں، اور سکون بھری فضا جیسے خوش آمدید کہہ رہی تھی۔ ہم ہوٹل پہنچے، سامان رکھا، نہا دھو کر تازہ دم ہوئے اور پھر کالام کے بازار کی طرف نکل پڑے۔

سب سے پہلے دریائے سوات کے کنارے گئے۔ دریا کا پانی شور مچاتے ہوئے بہہ رہا تھا، اس کے کنارے ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، اور اردگرد کے پہاڑ منظر کو مکمل بنا رہے تھے۔ کچھ دیر یہاں رک کر ہم نے قدرت کے ان حسین مناظر کا لطف اٹھایا۔ اس کے بعد ہم نئے اور پرانے کالام بازار کی سیر کو نکلے۔ نیا بازار جدید دکانوں اور ہوٹلوں سے بھرا ہوا تھا جبکہ پرانے بازار میں مقامی لوگوں کی بنائی ہوئی اشیاء، لکڑی کا کام، ہاتھ سے بنی جوتیاں، جڑی بوٹیاں اور سوغاتیں دیکھنے کو ملیں۔

رات کو واپس ہوٹل آئے، کھانا کھایا اور سفر کی تھکن اتارنے کے لیے آرام کیا۔ اگلا دن جمعہ تھا۔ صبح ہم نے کالام بازار کے پیچھے پہاڑی کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں میونسپل کارپوریشن کے دفاتر واقع ہیں۔ اس مقام سے پورے کالام بازار، دریا، اور اردگرد کے پہاڑوں کا نظارہ نہایت دلکش نظر آتا ہے۔ کچھ دیر یہاں بیٹھ کر قدرتی مناظر کو آنکھوں میں بسایا، تصاویر بنائیں اور اس منظر کی خوبصورتی کو محسوس کیا۔

کالام بازار اپنے منفرد حسن اور مقامی ثقافت کا بھرپور آئینہ دار ہے۔ بازار کی گلیوں میں چلتے ہوئے ہر طرف قدرتی خوشبو، تازہ سبزیاں، مقامی جڑی بوٹیاں اور ہاتھ سے بنی ہوئی لکڑی کی اشیاء نظر آتی ہیں۔ لکڑی کی خوبصورت نقاشی والے سامان، روایتی ٹوپیاں، اور سواتی چپل دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگ اپنی روایات کو کس قدر محبت سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ بازار کے پرانے حصے میں چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں جہاں بوڑھے کاریگر برسوں پرانے ہنر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

نئے کالام بازار میں جدید طرز کی دکانیں، ہوٹل، کیفے اور ریسٹورنٹ نظر آتے ہیں جہاں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ یہاں سے مقامی شہد، خشک میوہ جات، اور خوبانی کی چٹنی جیسی چیزیں بطور سوغات خریدی جا سکتی ہیں۔ بازار کی گلیاں ہر وقت زندگی کی چہل پہل سے بھری رہتی ہیں اور دریائے سوات کی ٹھنڈی ہوائیں ماحول کو مزید خوشگوار بنا دیتی ہیں۔ کالام بازار نہ صرف خریداری کی جگہ ہے بلکہ یہاں کی فضا، خوشبو اور منظر دل و دماغ کو ایک الگ سی تازگی بخش دیتے ہیں۔

کالام بازار کے اردگرد کی آبادی نہایت سادہ، محنتی اور خوش اخلاق لوگوں پر مشتمل ہے، جن کی زندگیاں فطرت کے قریب اور روایتی انداز میں بسر ہوتی ہیں۔ یہاں کے بیشتر لوگ زراعت، مویشی بانی، اور مقامی سیاحت سے وابستہ ہیں، جبکہ کچھ افراد لکڑی کی دستکاری اور جڑی بوٹیوں کے کاروبار سے اپنا روزگار کماتے ہیں۔ گھروں کی ساخت عموماً لکڑی اور پتھروں سے بنی ہوتی ہے، جو نہ صرف موسمی سختیوں سے بچاتی ہے بلکہ علاقے کی خوبصورتی کو بھی بڑھاتی ہے۔ مقامی لوگ مہمان نوازی میں مشہور ہیں اور خوش دلی سے آنے والے سیاحوں کو اپنے رسم و رواج اور ثقافت سے روشناس کراتے ہیں۔

دوپہر 12 بجے کے قریب ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا۔ بحرین بازار پہنچ کر جمعہ کی نماز مقامی مسجد میں ادا کی۔ مسجد کا سکون، نمازیوں کی صفیں اور دریائے سوات کی آواز سب کچھ روح کو تازگی بخش رہا تھا۔ نماز کے بعد چار باغ بازار میں رک کر کھانا کھایا۔ مقامی کھانے بہت لذیذ اور خوش ذائقہ تھے۔

کھانے کے بعد ہم آڑو اور آلوبخارا کے باغات کی طرف گئے۔ یہاں کے درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ میٹھے آڑو اور رس بھرے آلوبخارے دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ہم نے تازہ پھل خریدے اور ان کی پیٹیاں تیار کرائیں تاکہ واہ کینٹ جا کر بھی ان کا ذائقہ یاد رہے۔

یہ سب کچھ مکمل کرنے کے بعد واپسی کا سفر براستہ موٹر وے شروع کیا۔ رات کے وقت سڑکوں پر ٹریفک کم تھا، موسم خوشگوار تھا اور سفر آرام دہ۔ تقریباً رات 10 بجے ہم واہ کینٹ پہنچ گئے۔ جسم تھکن سے چور تھے مگر دل خوش تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خوبصورت، محفوظ اور یادگار سفر عطا کیا۔

گھر پہنچ کر سب نے اللہ کا شکر ادا کیا اور آرام کے لیے بستر پر لیٹ گئے۔ نیند بھی جیسے ایک نئی تازگی لیے آئی۔

یہ سفر نہ صرف آنکھوں کی تسکین بلکہ روح کی خوشی اور قلبی سکون کا باعث بنا۔ ہر منظر، ہر جھونکا، ہر آواز جیسے قدرت کا حسین پیغام لے کر آئی تھی۔ سوات کی وادیاں، کالام کے پہاڑ، دریائے سوات کا پانی، بحرین اور مدین کے نظارے، باغوں کی خوشبو، سب کچھ دل میں ایک خوبصورت یاد بن کر محفوظ ہو گیا۔ اس سفر کی یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔

تحریر و تحقیق
عطاءالمنعم
واہ کینٹ پاکستان
.
.

Comments

Popular posts from this blog

House Designing

Round Stair

Online Training Courses

Online Training Courses Well Control School Overview Well Control School (WCS) offers IADC and IWCF accredited well control training for drilling, workover/completion, coiled tubing, snubbing and wireline operations. WCS courses are available in instructor-led, web-based and computer-based format, and are accredited by IACET for CEU credits at the introductory, fundamental and supervisory levels. System 21 e-Learning The System 21 e-Learning program provided by Well Control School uses interactive tasks and role-playing techniques to familiarize students with well control concepts. These self-paced courses are available in web-based and computer-based format. This program offers significant cost savings, as training is available at any location and any time around the world with 24/7 customer support. Classroom Training Well Control School provides IADC and IWCF accredited courses led by certified subject-matter experts with years of field experience. Courses are of...

ہم نہریں بنانے لگے ہیں.

ہم نہریں بنانے لگے ہیں.  پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پانی کے مؤثر انتظام میں مسلسل ناکام رہا ہے۔ بدقسمتی سے، یہاں پانی کے ذخائر اور نہریں بنانے جیسے قومی مفاد کے منصوبوں پر سیاست اور تعصب غالب آ جاتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ جیسے ہی کوئی حکومت بڑا آبی منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کرتی ہے، کچھ عناصر اس کے خلاف احتجاج، جلسے اور جلوس شروع کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً، کئی اہم منصوبے یا تو التوا کا شکار ہو جاتے ہیں یا کبھی مکمل ہی نہیں ہو پاتے، جس سے نہ صرف زراعت بلکہ ملک کی معیشت اور توانائی کے شعبے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے برعکس، دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک بشمول چین، پانی کو ایک قیمتی قومی اثاثہ سمجھ کر اس کے مؤثر استعمال پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ وہاں نہروں، ڈیموں، اور واٹر مینجمنٹ سسٹمز کو قومی ترقی کا ستون سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں اگر عوام اور حکومتیں اس شعور کے ساتھ متحد ہو جائیں کہ پانی کا انتظام نسلوں کی بقا کے لیے ضروری ہے، تو شاید ہم بھی پانی کے موجودہ بحران پر قابو پا سکیں اور ایک پائیدار مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔   چین میں جنوب سے شمال پانی کی منتقلی کا منصوبہ (So...