انسانی فطرت اور کشش کا تعلق ہماری توقعات اور تصورات سے بہت گہرا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص جب کسی سے پہلی بار ملتا ہے تو اس کے بارے میں مختلف خیالات باندھتا ہے۔ یہ خیالات زیادہ تر مبہم اور خیالی ہوتے ہیں کیونکہ ہم سامنے والے شخص کو اس کی حقیقت میں جانتے نہیں ہوتے۔ ہمیں صرف اس کی ظاہری شخصیت، بات چیت یا رویے کے چند پہلو نظر آتے ہیں، جنہیں ہم اپنی توقعات کے مطابق مثالی یا خوبصورت سمجھتے ہیں۔ تاہم، جیسے جیسے ہم اس شخص کو قریب سے جاننے لگتے ہیں، ہمارے خیالات اور توقعات بدلنے لگتی ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسانی کشش اپنے مختلف پہلوؤں میں تبدیل ہوتی ہے۔
جب تک ہم کسی سے انجان ہوتے ہیں، ہماری نظروں میں وہ ایک مثالی شخصیت ہوتی ہے، اور ہم اس کی خامیوں سے ناواقف رہتے ہیں۔ انسانی ذہن کی یہ خاصیت ہے کہ وہ نامعلوم چیزوں کو زیادہ پرکشش سمجھتا ہے۔ انجان چیزوں میں تجسس کا پہلو ہوتا ہے، اور ہم ان کی خوبصورتی کے بارے میں زیادہ خیالات باندھتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی ہم اس شخصیت کے قریب آتے ہیں، ان کے بارے میں جاننا شروع کرتے ہیں، ہمیں ان کی خامیاں اور وہ پہلو نظر آنے لگتے ہیں جو پہلے ہماری نظروں سے اوجھل تھے۔
یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا، اور نہ ہی کوئی ایسا انسان ہے جو ہماری تمام توقعات پر پورا اتر سکے۔ جب ہم کسی کو قریب سے جانتے ہیں، تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی ایک عام انسان ہے، جس میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی۔ لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہماری توقعات اس شخص سے بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ جب ہماری توقعات پوری نہیں ہوتیں، تو ہمیں مایوسی ہوتی ہے اور وہی شخص جو پہلے بہت دلکش لگتا تھا، اب ہمیں اپنی کشش کھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
یہاں پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کسی شخص کے بارے میں جاننے سے اس کی اصل خوبیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا چاہیے کہ ہر انسان کی اپنی خامیاں ہوتی ہیں، اور یہ خامیاں بھی اس کی شخصیت کا حصہ ہیں۔ کسی کی کشش کا کم ہو جانا یا اس کی دلچسپی کا ختم ہو جانا اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ شخص برا ہے یا اس کی کوئی قدر نہیں۔ بلکہ یہ ہماری اپنی توقعات اور خیالات کا نتیجہ ہے، جنہیں ہم نے شروع میں غیر حقیقی بنیادوں پر قائم کیا ہوتا ہے۔
ہم اکثر اپنے ذہن میں ایک آئیڈیل شخصیت کا خاکہ بناتے ہیں، اور جب کسی شخص سے ملتے ہیں، تو ہم اس کو اسی آئیڈیل شخصیت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب وہ ہماری توقعات کے مطابق نہیں نکلتا، تو ہمیں مایوسی ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی انسان سو فیصد ہماری توقعات پر پورا نہیں اتر سکتا۔ ہر انسان کی اپنی منفرد شخصیت ہوتی ہے، اور ہمیں اسے اسی انداز میں قبول کرنا چاہیے۔
یہ مسئلہ صرف ذاتی تعلقات تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہم اپنے آئیڈیلز کے ساتھ بھی یہی کرتے ہیں۔ مثلاً، ہم کسی مشہور شخصیت کو آئیڈیل سمجھتے ہیں اور جب اس کے بارے میں کچھ منفی پہلو سامنے آتے ہیں، تو ہم مایوس ہو جاتے ہیں۔ یہ قدرتی ہے، کیونکہ ہم نے اس شخصیت کے بارے میں ایک مثالی تصور قائم کیا ہوتا ہے، اور جب حقیقت میں وہ اس پر پورا نہیں اترتی، تو ہمیں اس کی کشش کم لگنے لگتی ہے۔
انسانی فطرت کا یہ پہلو ہر دور میں موجود رہا ہے۔ ہمیں ہمیشہ تجسس ہوتا ہے کہ ہم کسی نئی چیز یا نئے شخص کے بارے میں جانیں، لیکن جیسے ہی ہمیں وہ معلوم ہوتا ہے، اس کا سحر ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اکثر حقیقت کو قبول کرنے کے بجائے اپنے خیالات کی دنیا میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں کسی کو جاننے یا اس کے قریب آنے سے گریز کرنا چاہیے۔ بلکہ یہ ایک موقع ہوتا ہے کہ ہم حقیقی زندگی اور حقیقی انسانوں کو ان کی اصل شکل میں قبول کریں۔ ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ ہر شخص میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی، اور یہ خامیاں کسی کی قدر کو کم نہیں کرتیں۔ بلکہ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں اور ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے اور قبول کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ کوئی بھی انسان کامل نہیں ہوتا اور ہر شخص کی اپنی انفرادیت ہے، تو ہمیں اپنے رشتوں میں زیادہ حقیقت پسندی اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملے گا۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ تعلقات کا اصل حسن اس میں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اس کی خامیوں کے ساتھ قبول کریں، نہ کہ صرف اس وقت جب وہ ہماری توقعات کے مطابق ہو۔
یہی سچائی ہمیں اس بات کی طرف لے جاتی ہے کہ ہم اپنے آئیڈیلز کو بھی انسان سمجھیں، نہ کہ کسی خیالی شخصیت کو۔ ہر شخص کی اپنی منفرد خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں، اور ہمیں اس حقیقت کو قبول کرتے ہوئے ان کی عزت کرنی چاہیے۔
اختتاماً، انسانی فطرت میں توقعات اور خیالات کی تشکیل کا عمل قدرتی ہے، لیکن ہمیں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ حقیقت میں کوئی بھی انسان ہمارے خیالی خاکے کے مطابق نہیں ہوتا۔ ہمیں دوسروں کو ان کی حقیقت میں قبول کرنا چاہیے اور ان کی قدر کرنی چاہیے، بجائے اس کے کہ ہم انہیں اپنی توقعات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اس طرح ہم زیادہ پائیدار اور مضبوط تعلقات قائم کر سکتے ہیں اور زندگی میں زیادہ خوشی اور سکون حاصل کر سکتے ہیں۔
تحریر و تحقیق
عطاءالمنعم
واہ کینٹ پاکستان
.
.
Comments
Post a Comment