امریکی ڈالر کا زوال: عالمی مالیاتی نظام میں ممکنہ تبدیلی
دنیا کی معیشت میں امریکی ڈالر کی حکمرانی کا دور کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ 1944 میں بریٹن ووڈز معاہدے کے بعد سے، ڈالر کو عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت حاصل رہی ہے، اور اس کے ذریعے بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کی جاتی رہی ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں مختلف ممالک کے درمیان ڈالر پر انحصار کم کرنے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے، جسے کچھ ماہرین "ڈی ڈالرائزیشن" کہتے ہیں۔ چین، روس اور سعودی عرب جیسے ممالک، جو اپنی معیشتوں میں مزید خود مختاری چاہتے ہیں، ایک متبادل عالمی مالیاتی نظام کی تشکیل کی کوشش کر رہے ہیں۔
ڈی ڈالرائزیشن کا پس منظر
ڈی ڈالرائزیشن کا تصور نیا نہیں ہے، لیکن اس کی حالیہ رفتار میں اضافے کی وجہ عالمی جغرافیائی سیاسی حالات ہیں۔ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران اور اس کے بعد کی کساد بازاری نے دنیا کی معیشت پر امریکی اثر و رسوخ کے منفی پہلوؤں کو نمایاں کیا۔ بہت سے ممالک نے یہ سوچنا شروع کیا کہ اگر وہ امریکی مالیاتی نظام پر انحصار کرتے رہے تو مستقبل میں کسی بحران کی صورت میں وہ کس قدر متاثر ہوں گے۔
اس کے علاوہ، 2022 میں روس پر مغربی ممالک کی جانب سے لگائی جانے والی سخت پابندیوں نے دنیا بھر میں بہت سے ممالک کے لیے ایک انتباہی پیغام بھیجا۔ ان پابندیوں نے روس کو ڈالر کے عالمی مالیاتی نظام سے باہر کر دیا، جس سے ظاہر ہوا کہ اگر امریکہ چاہے تو وہ کسی بھی ملک کو عالمی مالیاتی نظام سے خارج کر سکتا ہے۔ اس واقعے نے روس سمیت دیگر ممالک کو ڈالر کے متبادل تلاش کرنے پر مجبور کیا۔
چین، روس اور سعودی عرب کا کردار
چین، روس اور سعودی عرب، ڈی ڈالرائزیشن کی اس تحریک میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ چین نے حالیہ برسوں میں اپنی کرنسی "یوآن" کو بین الاقوامی سطح پر فروغ دینے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔ چین اور روس کے درمیان کرنسی سوآپ کے معاہدے اور یوآن میں تجارت نے اس سمت میں ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ روس نے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں چینی یوآن کو شامل کر لیا ہے، جبکہ چین نے روس کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو یوآن میں مستحکم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔
اسی طرح سعودی عرب، جو دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کنندگان میں سے ایک ہے، نے بھی چین کے ساتھ یوآن میں تجارت کا معاہدہ کیا ہے۔ حالانکہ تیل کی تمام فروخت کو یوآن میں تبدیل کرنا ابھی ممکن نہیں، لیکن یہ معاہدہ اس سمت میں ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔ یہ ممالک چاہتے ہیں کہ وہ امریکی ڈالر پر انحصار کم کر سکیں اور اپنی معیشتوں کو ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ سے بچا سکیں۔
ڈی ڈالرائزیشن کی وجوہات
مختلف ممالک کی طرف سے ڈالر پر انحصار کم کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ عالمی مالیاتی پابندیوں کا خطرہ ہے، جیسا کہ روس کے ساتھ ہوا۔ اگر امریکہ کسی ملک کو ڈالر کے نظام سے باہر کر سکتا ہے تو بہت سے ممالک کو لگتا ہے کہ وہ بھی مستقبل میں اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکہ کی مالیاتی پالیسیوں، جیسے کہ فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافہ، عالمی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے دیگر ممالک کی کرنسیاں غیر مستحکم ہو سکتی ہیں، جو ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ چین، روس اور دیگر ممالک اپنی کرنسیوں کو زیادہ آزاد بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ بین الاقوامی تجارت میں ڈالر کی جگہ لے سکیں۔ چین خاص طور پر اپنی کرنسی "یوآن" کو ایک عالمی کرنسی بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے چین نے اپنے ملک میں یوآن کے استعمال کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے ہیں تاکہ یوآن میں تجارت کو فروغ دیا جا سکے۔
ڈی ڈالرائزیشن کی مشکلات
اگرچہ ڈی ڈالرائزیشن کی تحریک میں تیزی آئی ہے، لیکن اس کے مکمل نفاذ میں کئی چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ امریکی ڈالر اب بھی دنیا کی سب سے زیادہ قابل بھروسہ کرنسی ہے۔ اس کی وجہ اس کی مستحکم معیشت، عالمی تجارتی نظام میں اس کی بڑی شراکت، اور اس کی گہری مالیاتی منڈیاں ہیں۔ بہت سے ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اب بھی ڈالر کا سب سے زیادہ حصہ ہے، اور عالمی تجارت میں بھی ڈالر کا استعمال عام ہے۔
اس کے علاوہ، چین کی کرنسی "یوآن" کو عالمی سطح پر مکمل طور پر قابل قبول بنانے میں بھی مسائل ہیں۔ یوآن ابھی تک عالمی مالیاتی منڈیوں میں مکمل طور پر آزاد نہیں ہے، اور چین کی حکومت کی جانب سے کرنسی پر عائد پابندیاں اس کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ مزید برآں، دیگر ممالک بھی اپنے مالیاتی نظام میں تبدیلیوں کے حوالے سے محتاط ہیں، کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب ہوں۔
مستقبل کی پیش گوئی
ڈی ڈالرائزیشن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے ممالک، جیسے چین، روس، اور سعودی عرب، ڈالر کے متبادل کی طرف بڑھتے ہیں، تو مستقبل میں ایک کثیر قطبی مالیاتی نظام قائم ہو سکتا ہے۔ اس نظام میں مختلف کرنسیاں عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہوں گی، اور امریکی ڈالر کی حکمرانی کم ہو جائے گی۔ تاہم، یہ عمل ایک طویل المدتی ہوگا، اور امریکی ڈالر کو مکمل طور پر ختم کرنا بہت مشکل ہوگا۔
دوسری جانب، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی ڈالر کی عالمی حیثیت کو فوری طور پر خطرہ نہیں ہے۔ ڈالر کی طاقت اس کی استحکام، لیکویڈیٹی، اور عالمی سطح پر اس کے استعمال کی وجہ سے برقرار ہے۔ تاہم، ڈی ڈالرائزیشن کے عمل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دنیا کے ممالک عالمی مالیاتی نظام میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ مستقبل میں کسی بحران یا پابندی سے بچ سکیں۔
ڈی ڈالرائزیشن ایک پیچیدہ اور طویل المدتی عمل ہے، جو موجودہ جغرافیائی سیاسی حالات اور عالمی مالیاتی نظام کے ارتقاء کی عکاسی کرتا ہے۔ چین، روس، اور سعودی عرب جیسے ممالک اپنے اقتصادی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن امریکی ڈالر کی عالمی حکمرانی ابھی بھی برقرار ہے۔ اس تبدیلی کا مستقبل یہ طے کرے گا کہ کیا واقعی ایک نیا مالیاتی نظام سامنے آئے گا یا امریکی ڈالر اپنی موجودہ حیثیت برقرار رکھے گا۔
تحریر و تحقیق
عطاءالمنعم
واہ کینٹ پاکستان
.
.
Comments
Post a Comment